Sunday, March 07, 2021

گلابی دھبـّے

میری شادی اور کاظم سے، یہ بم نما خبر میرے سر پہ پھوڑی گئی تھی. اس دھماکے کے بعد کانوں میں مچھروں کی سی بھن بھن شروع ہو گئی تھی اور زبان پہ جیسے کسی نے کوئی وزنی پتھر رکھ دیا ہو. حلق تک وہ سوکھا پڑا تھا کہ سانس بھی رک رک کے نکل رہی تھی
یہ نہیں تھا کہ کاظم کوئی لوفر بدمعاش تھا، نہ ہی اسے کوئی موذی بیماری تھی، ہاتھ پیر بھی سلامت تھے، پچھلے ساڑھے تین سال سے وہ کریانے کی اپنی دوکان کھول کے اچھا خاصا کما بھی رہا تھا. یہ بھی نہیں تھا کہ مجھے کوئی اور پسند ہو
مسئلہ یہ تھا چھے سال پہلے باجی سعدیہ اور کاظم کی لو سٹوری شروع ہوئی تھی اور ان کے تمام تر خطوط، عید و سالگرہ کے کارڈز اور رقعہ جات کی قاصد میں رہی تھی. دونوں اطراف کے پیغامات میں خود پڑھتی رہی تھی. دونوں کی محبت تابڑ توڑ تھی. ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ ان کا آمنا سامنا ملنا ملانا ہوتا ہی رہتا تھا مگر پھر بھی پیغامات قریباً ہر دوسرے روز پہنچائے جاتے تھے. چاند راتوں پہ تحائف بھی میرے ذمے تھے کہ پہنچائے جائیں. بات خط و کتابت سے بڑھی اور خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں، میں باجی سعدیہ کے ساتھ ہی جاتی تھی. اتنی نا سمجھ تو میں تھی نہیں کہ ملاقات کے بعد باجی سعدیہ کے لال گال، گردن اور چھاتی پہ گلابی دھبـے سمجھ نہ پاتی. وہ دونوں خوش تھے سو مجھے نہ کوئی اعتراض تھا نہ ہی کوئی مسئلہ
مسئلہ مگر تب ہوا جب دو سال پہلے پھوپھی شاہینہ نے اپنے بیٹے فرحان کے لیے باجی سعدیہ کا ہاتھ مانگا اور ابا اور اماں نے ایک لمحے میں ہاں کر دی. جھٹ منگنی پٹ بیاہ سن رکھا تھا مگر یہاں جھٹ پٹ بیاہ ہی ہو گیا تھا. فرحان کا سویڈن کا ویزہ لگا تھا اور اسے جلد جانا تھا اور جانے سے پہلے وہ شادی کر کے جانا چاہتا تھا. سب اتنی جلدی جلدی ہوا کہ باجی سعدیہ کے رونے دھونے کام آئے نہ ہی کاظم کچھ کر سکا
ان دونوں کی الوداعی ملاقات میں نے بار بار دھندلاتی آنکھوں سے دیکھی تھی. دونوں پہلے ایک دوسرے کو کوستے رہے، کچھ نہ کرنے کے طعنے مارتے رہے اور پھر اچانک گلے لگ کے روتے رہے. میں دروازے کی اوٹ میں تھی اور رو رہی تھی. نہ میں رونے کے علاوہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ ہی وہ دونوں، سو سعدیہ باجی رخصت ہو گئیں اور وقت آگے بڑھنے لگا

اب باجی سعدیہ کے کاظم سے میری شادی ہو رہی تھی. کاظم کی اماں رشتہ لے کے آئی تھیں اور میرے گھر والوں کو اس پہ کوئی اعتراض نہ تھا. میرے آگے پڑھنے کے بہانے، اماں کو جذباتی کرنے کے سب ڈرامے رائیگاں ہی رھے. مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ گھر میں کسی کو بتا پاتی کہ میں کاظم اور باجی سعدیہ کی محبتوں، جذباتی خط و کتابت اور تمام حدود سے پرے کی ملاقاتوں کی چشم دید گواہ ہوں

کمرے میں تازہ پھولوں کی مہکار تھی، اتنے وزنی کپڑوں سے کندھے دُکھ رہے تھے اور بھاری زیور سے گردن جیسے لٹک رہی تھی. دروازے کو اندر سے چٹخنی لگا کے کاظم میرے سامنے بیٹھ چکا تھا. میرا دل گلابی عروسی جوڑے سے باھر نکل رہا تھا. اس نے میرے چہرے سے دوپٹہ ہٹایا اور منہ دکھائی کے کنگن میرے ہاتھ میں تھما دئیے. اس نے میری ٹھوڑی کو اٹھایا اور ماشا اللہ کہہ کے میرے چہرے کو چومنا چاہا. میں ایک دم پیچھے ہٹی، وہ پہلے ہکا بکا رہا پھر اس کے چہرے سے غصہ جھلکنے لگا. میں نے ڈرتے ڈرتے کانپتی آواز میں کہا "یہ سب کیسے، آپ اور باجی سعدیہ تو بہت محبت کرتے تھے، مجھ سے شادی کیوں" میری آواز بھرا گئی. اس نے پہلے غصے میں دوپٹہ کھینچ کے اتار پھینکا پھر میرے سامنے بیٹھ کے بولا " میں تم میں وہی سعدیہ دیکھتا ہوں، میرے لیے تم رابعہ نہیں، تم ہی سعدیہ ہو" اس کا  ہاتھ میرے کندھے سے اتر کے اس دل کی دھڑکنوں کو پکڑنے لگا جو کپڑوں سے باھر دھڑک رہی تھیں. "اور یقین مانو تم سعدیہ سے کہیں آگے کی شے نکلی ہو، تم بہت خوبصورت ہو" اس نے گلابی جوڑے کو اتار دیا اور میری گردن اور چھاتی کو گلابی دھبوں سے سجانے لگا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...