Monday, December 26, 2016

قلم کار کی موت

دو دن پہلے اس سے ملاقات رہی اور اس نے ذرا سی بھی بھنک نہ لگنے دی کہ وہ مر رہا ہے.. مگر وہ مر گیا..
چھٹی جماعت میں تھا وہ جب اس نے عاصی تخلص رکھا اور اپنی پہلی غزل اپنے تایا کے جنازے میں شرکت کیلئے نہاتے ہوئے لکھی تھی.. ظالم نے اس موقعے پہ بھی عشقیہ غزل ہی لکھی.. حالات سے بھاگتا تھا وہ یا بغاوت، میں آج تک نہیں سمجھ پایا..

قلم کاری اس کا بچپن سے جنون تھا، وہ شاعری بھی کرتا رہا، بلکہ اردو کے کئی ایک نامور شعرا سے اپنے کلام پہ داد بھی وصول چکا تھا، مگر وہی اس کی باغی طبیعت کہ شعر بـے وزن بھی کہتا اور اسے "شعر" کہنے پہ بضد بھی رہتا.. اس کا ماننا تھا کہ شعر وہی جو وارد ھو گیا، اس میں رد و بدل شرک ہے.. مگر بـے وزن شعر کہنے پہ کوئی مر تو نہیں جاتا نا..

اس نے پہلا افسانہ تب لکھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھا، اور پہلا افسانہ ہی دو لڑکوں کی آپسی محبت پہ لکھا اور جن دو چار نے پڑھا خوب گالیوں سے نوازا.. تب سے وہ افسانوں کے نام پہ جو دل میں آئے لکھ دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ لوگ اسے پڑھیں، چاہے پھر گالیاں ہی دیں.. مگر گالیاں کھانے سے کوئی مر تھوڑی جاتا ہے؟؟

اپنے تایا، نانی، ماموں کسی کی موت پہ روتے نہیں دیکھا اسے مگر جب ارفع کریم رندھاوا فوت ہوئی تو بلک بلک کے رویا تھا، کہتا تھا مجھے لگ رہا ہے میری اپنی بچی مر گئی ہے..
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ مرا کیسے، مطلب کس بیماری سے.. اسے کوئی بیماری نہیں تھی..
ہاں، وہ پانچویں میں تھا جب گاؤں کے باہر سرکس لگی تھی، سرکس کے آخری دن انھوں نے ایک زندہ شخص کو دو بجے دوپہر قبر میں اتارنا تھا اور شام چھے بجے زندہ نکالنا تھا.. سب نے چھے بجے وہاں جانا تھا مگر عاصی کو دیکھنا تھا کہ اسے دفناتے کیسے ہیں،
سو دوپہر کے ڈیڑھ بجے ہی چپکے سے ایک ویگن کے پیچھے لٹک لیا کہ سرکس کے پاس اتر جاؤں گا مگر ڈرائیور فل سپیڈ میں گاڑی دوڑا رہا تھا اور فل والیم میں "چاند نے کچھ کہا، رات نے کچھ سنا، تو بھی سن بـے خبر، پیار کر" سن رہا تھا، عاصی نے بہت کوشش کی مگر گاڑی نہ رکی تو بد بخت نے پکی سڑک پہ چھلانگ لگا دی اور سَر پہ بل سڑک پہ آرہا.. بـے ہوش رھا، سَر پھٹا بھی نہیں اور پھول کے فٹ بال سا ھو گیا.. خون کی الٹیاں کرتا رہا مگر سب ٹھیک رہا، نہ کوئی ہڈی ٹوٹی نہ سَر پھٹا.. اور اس بات کو اب دو دہائیوں سے اوپر ھو گئے ہیں.. اُس چوٹ کی وجہ سے اب مر سکتا ہے وہ؟ شاید سر کا کینسر ھو گیا تھا اسے...

ہاں مگر وہ بیٹھے بیٹھے کھو جاتا تھا، سب کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے کرتے وہ چپ سا ھو جاتا، اس کے چہرے کا رنگ، جو کالا تھا، اور کالا پڑ جاتا .. وہ کہیں اور پہنچ جاتا تھا، پھر اچانک ہڑبڑا کے ہوش میں آ جاتا .. کچھ یادیں، کچھ واقعات اس کے ذہن میں بیٹھ جاتے، بلکہ گھر کر جاتے تھے.. مگر اس بات پہ موت آ جاتی ہے؟ شاید اسے برین ہیمرج ھوا ھو گا...

وہ اپنے درد، اپنے دکھ کسی سے بانٹتا نہ تھا، چپ چاپ سہتا رہتا، سلگتا رہتا..وہ اپنے دکھوں کو پالتا تھا، انھیں اپنے دل کی زمیں پہ سیتا تھا، انھیں تناور درخت بناتا تھا.. میری مانو تو اس نے اپنے دکھوں کا ایک پورا جنگل آباد کر رکھا دل میں، جہاں وہ ایک ٹارزن کی طرح دن بھر ایک دکھ سے دوجے، دوجے سے چوتھے دکھ کے درختوں پہ لٹکتا، جھولتا رہتا..
ہاں، اسے ہارٹ اٹیک ھوا ھو گا..

"چلو بھئی، میت اٹھاؤ، کندھا دو... کلمہ شہادت..."

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...