Monday, September 30, 2019

آخری شاہکار

کمرے میں سگریٹ کے دھوئیں کے بادل سے اڑ رہے تھے... سارے میں رنگوں اور سگریٹوں کی بو پھیلی تھی... داہنی دیوار پہ لگے ہیٹر کی مہربانی سے درجہ حرارت مناسب تھا.. کھڑکی پہ ہوا کے زور سے برف کے تھپیڑے پڑ رہے تھے.... گلی میں لگا لیمپ جیسے کمرے میں ہی جھانک رہا تھا... کمرہ کیا تھا، کسی گناہ گار کی اجڑی قبر لگ رہا تھا... ایک کونے میں کچھ کتابیں اپنی بوسیدگی پہ ماتم کناں تھیں... رنگوں سے بھرے پرانے برش جا بجا اپنا خون تھوک چکے تھے، لکڑی کا فرش جیسے زخموں سے بھرا پڑا ہو... کچھ پرانے پیلے کاغذوں پہ برہنہ تصویریں کسی شوقین کی قبر کا کتبہ معلوم پڑتی تھیں..

سفید بالوں میں کہیں کہیں کالے بال بھی جھلک رہے تھے، وہ داہنے ہاتھ سے سر کھجاتا، باہنے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے دو گھونٹ پینے کے بعد کبھی کینوس اور پھر چھت کو گھورنے لگتا.... کھانسی اس کے گلے کی مقیم تھی، ہر چند سانسوں کے بعد کھڑکی کھولتی، محلے والوں کو صلواتیں سناتی اور زور سے کھڑکی بند کر دیتی...

کینوس پہ کچھ رنگ الجھے ہوئے تھے... وہ مصوری میں شاہکار تخلیق کرنے کی خواہش میں ساری زندگی گزار چکا تھا... اب کے گلے کی کھڑکی کھلی تو کھانسی نے آنتیں گلے تک کھینچ لیں... ہاتھ سے گلاس گرا اور بچے ہوئے دو گھونٹ بھی فرش کا نصیب ہوئے... وہ دیوار سے ٹیک لگا کے فرش پہ بیٹھ رہا... سانسیں بھاری ہو رہی تھیں... وہ آنکھوں تک آئے بال جھٹک کے بہتی آنکھوں کو میچ کے بیٹھ رہا... سب یادوں کے صندوق الٹ گئے...

ہوش سنبھالنے کی پہلی یاد کہ اس نے ماں کو ننگا دیکھا تھا جب وہ ابا کے کمرے سے نکل کے باتھ روم کے آئینے کے سامنے الجھے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی... وہ یاد اس کے ہاتھوں سے نکلتے رنگوں کی بنیاد تھی...

اس کے بوڑھے ماتھے پہ پسینہ تیر رہا تھا، دل کہیں گہرے سمندر میں ڈوب رہا تھا...

نئی نئی جوانی کے تمام تجربات سامنے ناچنے لگے،جب جسموں میں ہوتی تبدیلیاں، سوچنے سمجھنے کی راہیں بدلنے لگی تھیں.. جب ہر خوبصورت شہر فتح کرنے کی ناآسودہ خواہشات آنکھوں سے نیندیں لے گئی تھیں اور بجھتے چراغ کے کالے دھواں جیسے حلقے آنکھوں کے گرد پھیلنے لگے تھے...

ناآسودہ اور نامکمل خواہشات عمر کا آدھا حصہ ڈکار چکیں تو ایک شام ساحل سمندر پہ، ڈوبتے سورج کی خودکشی نے روٹھے ہوئے رنگوں سے، پھر سے متعارف کروا دیا.. بچپن کی پہلی یاد سے زندگی کے تمام کالے سرخ تجربے کینوس پہ رنگ برسانے لگے.... انھیں رنگوں میں بھیگتے بھیگتے کب بال اپنا رنگ بھول گئے، یاد نہیں...

کھانسی گلا چھیل رہی تھی، گلے میں خون کا ذائقہ گھل رہا تھا... زور زور سے چھاتی پیٹتے وہ دوہرا ہو گیا... اس نے پیروں میں پڑے رنگ پکڑے اور کینوس پہ دے مارے... رنگ کینوس پہ اچھلے اور کھانسی کے ساتھ اس کے گلے سے خون کا فوارہ سا نکلا... اس کا سر فرش پہ ڈھلک گیا، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں سامنے باتھ روم کے کھلے دروازے سے آئینہ دکھائی دے رہا تھا....


"پانچ ملین ایک..... پانچ ملین دو...... پانچ ملین تین" ڈائس پہ کھڑا شخص مائیک پہ چیخ رہا تھا....

"تو صاحبان ،آج شام مصوری میں نئی جہت کے بانی، رنگوں کے خدا جناب الپ ارسلان کا آخری شاہکار، ملک کے مشہور بزنس ٹائیکون، رئیل اسٹیٹ کے بادشاہ امن اخلاق کے نام ہو گیا"...

ہال میں تالیاں گونجیں تو اگلی کرسیوں سے امن اخلاق ساتھ بیٹھے بیٹے کا ہاتھ تھام کے کھڑے ہوئے اور پلٹ کے فاتحانہ مسکراہٹ ہال میں اچھال دی.. بیٹے کا ہاتھ پکڑے اور ایک ہاتھ میں عصا پکڑے وہ سٹیج کی طرف بڑھے...آنکھوں پہ لگی کالی عینک کے پیچھے بھی کالا گھپ اندھیرا تھا....

Thursday, September 19, 2019

تخلیقی کیڑے

میرا پہلا اعتراض مجھے تخلیق کیے جانے پہ تھا اور دوسرا اہم اعتراض، مجھے جیسا تخلیق کیا گیا تھا، اس پہ تھا... رنگ و نور کی اس دنیا میں، میں اپنی کیچڑ جیسی رنگت کا کس سے جواب مانگتا... میرے اماں ابا، دونوں بڑے بھائی اور منجھلی بہن سب صاف رنگت کے تھے تو میں کیوں نہیں؟؟

جانے نائی نے میرا اولین منڈن کس اُسترے سے کیا تھا کہ میرے بال 'مانگ نکالے' جانے کو کفر خیال کرتے تھے.. بال بڑھتے تھے اور نیچے ماتھے کی طرف سو کبھی بال بڑے رکھنے کی خواہش پالنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی...

ناک جو کہ معاشرے میں کٹنے اور کٹوانے کے کام آتی ہے، آدھے چہرے پہ پھیلی پڑی تھی گویا.. مجھے کامل یقین ہے کہ میری ناک ہڈی سے محروم ہے..ناک مونث ہے مگر 'میری ناک مذکر ' ...

سامنے کے دانت بڑے اور آگے نکلے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے اوپر والا ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کا فرسٹ کزن لگتا تھا...

قد چھے فٹ سے نکل رہا تھا اور اپنی شکل پہ لوگوں کی جگتیں سننے کے بعد سر جھکانے کی عادت بچپن سے پڑ گئی تھی سو جوانی میں ہی ہلکا سا 'کُب' نکل آیا تھا.. ٹانگیں پتلے بانس کی طرح لمبی تھیں سو چلتا تھا تو دیکھنے والوں کو لگتا دوڑ رہا ہوں...

یہ جو مندرجہ بالا کیڑے میں نے اپنی تخلیق میں نکالے ہیں، یہ میرے لیے، بچپن سے جوانی تک میرے اردگرد بکھرے خوبصورت لوگوں کے مونہوں سے نکلتے آئے تھے... میں اپنے آپ سے شرمندہ پھرتا تھا... کبھی اعتماد نام کی شے مجھ میں سر اٹھا ہی نہ سکی... سکول سے کالج اور پھر کالج سے روزگار کی دوڑ تک، میں ان کیڑوں کو بآسانی ہضم کرنے کا عادی ہو چکا تھا... اب دوسروں کے مونہوں سے نکلے یہ کیڑے اپنی اولاد جیسے لگتے تھے...

لڑکپن کی محبت اتنی خوبصورت تھی کہ اس سے محبت کا اظہار اس سے کوئلوں کی دلالی کرانے جیسا تھا... سو اپنی پہلی محبت اپنے ہاتھوں مار کے دل میں بنی اس کی قبر کا مجاور بن گیا....

اور پھر میرے کیچڑ جیسے جیون میں وہ دن آیا جس نے میرے دوسرے اہم اعتراض کے پرخچے اڑا دئیے... امن آباد جیسے بڑے اور خوبصورت شہر میں کام کرتے تین سال ہو چلے تھے کہ ایک دن ایک کولیگ وزیٹنگ کارڈ جیسا ایک کارڈ تھما گیا کہ جا اپنی بدرنگ زندگی میں کچھ رنگ گھول لے... اس نمبر پہ فون کیا تو خاتون آپریٹر نے کچھ پل خوبصورت بنانے کی ترکیب کی مکمل آگاہی دی اور وقت طے کرنے کی بابت پوچھا...کل رات ساڑھے نو بجے کا وقت ملا اور پتا بھی بتا دیا گیا....

ساری رات اور اگلا دن عجیب سی کیفیت میں گزرا... طوائف کے کوٹھوں کے قصے سنتے پڑھتے، اب خود طوائف کے کوٹھے پہ جانے کی نیت باندھے بیٹھا تھا.. کبھی لگتا کہ گناہ کی اس گندگی سے بچنا چاہیے اور اگلے ہی پل یہ سوچ کے ہنسی نکل آتی کہ کیچڑ گند میں گرا بھی تو کیا فرق پڑتا ہے...
کام سے جلدی واپس آ کے نہا دھو کے کپڑے بدلے اور دئیے گئے پتے پہ وقت پہ پہنچ گیا ... فلیٹ کے باھر لکھے نمبر کو چار بار پڑھ کے تسلی کی تو گھنٹی بجا دی... دل کچھ اتھل پتھل ہو رہا تھا... کچھ دیر میں دروازہ کھُلا تو سبز اور سفید ساڑھی میں وہ توبہ توڑ جوانی، زندہ مسکراہٹ سجائے خوش آمدید کہہ رہی تھی....

میں اندر تو چلا گیا مگر میرے اندر کہیں ڈر اب بھی موجود تھا کہ میں اپنے تمام تر تخلیقی کیڑے لیے اس حسینہ کی بانہوں کا حق دار ہوں؟

وہ ساڑھی کا پلو گرا کے پلٹی اور گھنگھریالے بالوں کو چھاتی سے پیچھے جھٹک کے میری طرف بڑھی... بیڈ پہ میرے ساتھ بیٹھ کے اس نے ایک ٹانگ میری بانس جیسی ٹانگ پہ دھری اور بائیں ہاتھ کی انگلی میرے اونٹوں کے فرسٹ کزن جیسے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے بولی 'یہ ہونٹ کتنے پیارے ہیں'... میرا دل اچھل رہا تھا، اس نے میرے دھڑکتے ہونٹوں پہ تسلی کے دو لب رکھ دئیے...

میں رنگوں کی نہر میں غوطہ زن تھا... لہروں کی اُٹخ پٹخ تھمی تو میری چھاتی پہ اپنا بازو دھرے وہ میرے سر کے بالوں میں کبھی انگلیوں کی کنگھی کرتی تو کبھی میرے کیچڑ جیسے چہرے پہ ڈاک خانے جیسی مہریں لگا دیتی... پھر میری مذکر ناک کو کھینچ کے بولی 'جائیے بھی، جائیں گے نہیں تو واپس کیسے آئیں گے'...

میں گونگا ہو چکا تھا... جلدی جلدی پینٹ شرٹ پہنی، جوتے کے تسمے باندھے، پینٹ کی پچھلی جیب سے بٹوا نکالا اور طے شدہ رقم نکال کے بیڈ پہ رکھی اور دروازے کو لپکا... بازو کے بٹن بند کرتے دروازے کے پاس رکا اور پلٹا... وہ کم ہوا بھرے غبارے بلاؤز میں چھپا رہی تھی.. اس نے اسی زندہ مسکراہٹ اور سوالیہ آنکھوں سے دیکھا... میں لپکا اور جا کے اس کے پاؤں پہ ماتھا ٹکا دیا... اس نے پاؤں کھینچنے کی کوشش کی مگر میں دونوں ہاتھوں سے اس کے پاؤں پکڑے انھیں چومے جا رہا تھا اور میرے آنسو جیسے اس کے وضو کا آخری جزو پورا کر رہے تھے....

Tuesday, September 10, 2019

سانجھے حُسین

سارے میں آہوں اور ہچکیوں کی آوازیں تھیں ،مسجد کھچا کھچ بھری تھی .. آسمان چیرتے مینار پہ لگے اسپیکر میں سید ظفر علی شاہ کی رندھی آواز گونجی " نانے دے مونڈھے تے چڑھن آلا شہزادہ ،نیزے تے چڑھیا کڈھا سوھنا لغدا ہونا (نانا کے کندھے پہ بیٹھنے والا شہزادہ، نیزے پہ کس شان سے سجا ہو گا) " یہ کہتے ہی شاہ صاحب دھاڑیں مار مار کے رونے لگے....

اڑھائی، پونے تین سو گھروں پہ مشتمل گاؤں میں ایک گھر بھی شیعہ نہیں تھا ،کوئی تیس چالیس گھر وہابی تھے باقی سب سنی العقیدہ... مگر محرم سب کا سانجھا تھا، حسین کا درد سب کے دل کا تھا.. کوئی رونا گناہ، کوئی ماتم بدعت نہیں تھا..

محرم کی پہلی تاریخ سے حسین کے دکھ کی مدھم لو جلنی شروع ہو جاتی تھی... دن گزرتے جاتے اور حسینی قافلہ نو محرم تک جا پہنچتا... نو اور دس محرم کو روزہ رکھا جاتا... یہ روزہ رمضان کے روزوں کی طرح کوئی فرض نہیں تھا، یہ روزہ کربلا والوں کی پیاس سے سانجھ کی علامت تھا ... لوگ ثواب کی نہیں، بہتر مظلوموں کی پیاس اور تکلیف میں ساتھ دینے کی نیت باندھتے تھے... کوئی بدعت کا فتویٰ نہیں آتا تھا.. کوئی روزے کی نیت پہ شک نہیں کرتا تھا....

مساجد میں مجالس برپا ہوتیں.. کوئی شیعہ ذاکر نہیں آتا تھا.. کوفے کے دھوکے سناتے... اہل بیت کے دکھ رلاتے... کچھ چپکے روتے، کوئی آہوں سے... کچھ غم سے نڈھال ہو جاتے اور کچھ سینے کے اندر جلتے درد کو ہاتھ مار مار کے بجھاتے...

تب حسین سانجھے تھے... حسین کے ساتھی اور دشمن سب کے سانجھے ساتھی اور دشمن تھے... تب ظالم کو ظالم کہنے میں کوئی اگر مگر نہیں تھا، تب مظلوم پہ ہوئے ظلم کی کوئی توجیہہ نہیں تھی... تب ظالم، ظالم تھا اور ظالم کے ظلم و استبداد کے سامنے کھڑا ہونا حسینیت تھی...
تب حسین سانجھے تھے!!

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...