Monday, June 21, 2021

تیرھواں ‏پارہ ‏

عصر کا وقت سر پہ تھا اور مسجد میں مولوی عبدالحق کا سایہ تک نہ تھا. جون کی تپتی دوپہر تھی، ماسٹر انعام اللہ کے علاوہ اکا دکا نمازی ہی تھے جو دیواروں سے لگے سستا رہے تھے. ماسٹر جی نے دیوار کا سہارا لے کے اپنا فربہی جسم اٹھایا اور پھر گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کے آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے. گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک چکر لگا رہی تھیں. ماسٹر جی نے ادھر ادھر دیکھا اور گھڑی کو گھورتے ہوئے سپیکر کی طرف بڑھے. سپیکر آن کیا اور اپنی منحنی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز لگانی شروع کر دیں . ماسٹر جی حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ وہ اذان نہ ہی دیں کیونکہ ان کی آواز ان کے جثے کے بالکل برعکس تھی. خیر اذان تھی، چار رکعت سنت پڑھی، سلام پھیر کے دیکھا تو مولوی عبدالحق ابھی تک مسجد نہیں پہنچے تھے. مولوی عبدالحق مسجد کی پچھلی گلی میں ہی رہتے تھے، مسجد کی طرف سے رہائش ملی تھی وہ خود نواں والی سے تھے. ماسٹر جی نے وقار مچھی کو بھیجا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا کے لاؤ، شاید سو گئے ہوں گے. جماعت کے وقت میں پانچ منٹ باقی تھے کہ وقار مچھی دوڑتا ہانپتا آیا اور بتایا کہ دروازے کو باھر سے تالا لگا ہوا ہے.. پہلے سب حیران ہوئے اور پھر پریشان ہو گئے کہ رب جانے کیا مصیبت آن پڑی کہ انہیں یوں اچانک جانا پڑا. اسی پریشانی میں ماسٹر انعام نے جماعت کروائی اور پھر سب نمازی سوچ میں گم گھروں کو چل دئیے

رشیداں اس گرمی میں بھی اپنے گھر کی چھت سے پڑوسیوں کی چھت پہ اتری اور پھر سیڑھیاں نیچے اتر گئی. اس کا سانس پھولا ہوا تھا، عارفہ نے اسے صحن میں دیکھا تو اندر کمرے میں بلا لیا، رشیداں نے عارفہ سے کرن کے سپارہ پڑھ کے گھر آنے کے متعلق پوچھا تو اتنے میں کرن دوسرے کمرے سے آ گئی.. "بیٹا وہ فوزیہ گھر نہیں آئی ابھی تک، ساتھ نہیں آئی تم اس کے" کرن اپنی ماں کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی "نہیں خالہ آج ہم جیسے ہی پہنچے، مولوی صاحب نے چھٹی دے دی تھی کہ آج وہ نہیں پڑھائیں گے تو پھر  ہم سب گھر آ گئے".. رشیداں کی سانس نہیں مل رہی تھی "تو فوزیہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ".. کرن نے فوراً کہا" خالہ وہ فوزیہ کو مولوی صاحب نے سبق پڑھانا تھا، اسے مولوی صاحب نے روک لیا تھا، وہ وہیں تھی".. رشیداں منہ کھولے سن رہی تھی، کچھ دیر چپ کھڑی رہی اور پھر جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ، پھٹی آنکھوں سے سرپٹ دوڑتی وہ گلیوں میں دوڑتی کوئی پاگل لگ رہی تھی، دوپٹہ سر سے گردن اور گردن سے کندھے پہ لٹک رہا تھا، رشیداں کی دوڑ مولوی عبدالحق کے گھر پہ پڑے تالے پہ ختم ہوئی. رشیداں مسجد بھی گئی مگر وہاں مولوی صاحب نہیں تھے. اس نے اردگرد کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دئیے اور پھر جا کے مولوی صاحب کا باھر سے بند دروازہ پیٹنے لگی. لوگ گھروں سے باھر نکلے تو رشیداں نے چیخ چیخ کے دروازہ توڑنے کے ترلے ڈالنے شروع کر دئیے. پہلے تو کسی کو سمجھ نہ لگی کہ ہو کیا رہا ہے، رشیداں نے روتے پیٹتے فوزیہ کے گھر نہ آنے اور مولوی کے تالا لگا کے کہیں جانے کی بات کی تو عورتیں منہ پہ ہاتھ رکھ کے اجتماعی 'ھاھائےےےے" کرنے لگیں

عارفہ نے چھوٹے بیٹے اکبر کو رشیداں کے گھر بھیجا کہ جاؤ چاچا اسلم سے کہو کہ جلدی کرے خالہ رشیداں مولوی صاحب کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی گئی ہے.. اسلم لوہار نے یہ بات سنی تو فٹافٹ کُرتا پہنا اور مسجد کی طرف دوڑ لگا دی

سارا محلہ رشیداں پہ تف تف کر رہا تھا کہ کیسے اس بیوقوف عورت نے مولوی صاحب جیسے بندے پہ الزام ہی لگا دیا ہے،سب رشیداں کو کوس رہے تھے کہ مولوی عبدالحق، فوزیہ کے باپ کی عمر کے ہیں، کیا ہم لوگ انہیں جانتے نہیں کہ وہ پچھلے تین سال سے اسی گاؤں میں رہ رہے ہیں، کبھی کوئی شکایت نہ سنی. کسی بچے کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا، یہاں تک کہ کبھی ڈانٹتے بھی نہیں تھے اور تم بـے ایمان عورت نے مولوی صاحب پہ شک کر کے اپنا ایمان خراب کیا، اپنا اگلا جہان برباد کر دیا

اتنے میں اسلم بھی وہاں پہنچ چکا تھا اس نے قہر بھری نظر رشیداں پہ ڈالی اور اسے چپ کرنے کو کہا مگر رشیداں رو رہی تھی اور مسلسل دروازہ کھولنے کی منتیں کر رہی تھی. اسلم نے کھینچ کے اسے تھپڑ لگایا اور رشیداں جیسے تھپڑ کے درد سے کم اور صرف تھپڑ لگنے کے صدمے سے منہ بھینچ کے دیوار کا سہارا لے کے بیٹھ گئی اس نے گھٹنوں میں سر دیا اور رونے لگی

سب اسے برا بھلا کہہ رہے تھے اور پھر ماسی نذیراں نے فوزیہ پہ بھی الزام لگانے شروع کر دئیے "نہیں تُو پہلے اپنی جوان کُڑی تو سنبھال لے، کتنی بار اس کلموہی کو کہا کہ اب تیرے اچھلنے کودنے کے دن نہیں رہے مگر جب دیکھو کبھی اس گلی کبھی اُس گلی دوڑتی پھرتی ہے اوپر سے کم بخت پہ کچھ زیادہ ہی جوانی کی بہار آئی ہے، لڑکوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتی ہے وہ، پتا ہے تجھے، ہیں بول اب تجھے اس کے کرتوت نہیں پتا، اب منہ چھپا کے بیٹھی ہے، بول اسلمے تُو بھی بـے غیرت ہی ہو گیا ہے" اسلم کی ٹھوڑی چھاتی سے جا لگی.." رشیداں اب منہ چھپا کے بیٹھی رہ، روتی رہ اپنی دھی کو، پتا نہیں کہاں منہ کالا کر رہی ہو گی "...رشیداں کی برداشت بھر چکی تھی وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور چیخی" وہ صرف تیرہ سال کی ہے، تیرہ سال کی بچی ہے وہ.. تیرہ سال کی بچی " رشیداں تیرہ سال تیرہ سال چیختی بند دروازہ پیٹنے لگی

رفیق مستری اندر سے چھینی ہتھوڑا لے آیا اور اس نے ارد گرد کھڑے سب لوگوں کی طرف دیکھا اور چھینی تالے پہ رکھ کے زور سے ہتھوڑے کے وار کرنے لگا. تیسرے وار پہ تالا زمین پہ پڑا تھا. اس نے کنڈی کھولی ہی تھی کہ رشیداں دوڑ کے اندر گھس گئی. چھوٹے سے صحن کے سامنے برآمدہ تھااور سامنے والے کمرے کو بھی کنڈی لگی تھی. سارا محلہ صحن میں تھا کہ اس نے کنڈی کھولی اور سامنے فرش پہ فوزیہ دیوار سے سر ٹکائے چھت پہ مسلسل چلتے پنکھے کو گھورے جا رہی تھی. فرش پہ اس کی شلوار پڑی تھی، اس کی ننگی ٹانگوں پہ خون کی لکیریں کھنچ گئی تھیں. رشیداں نے اسے اپنا دوپٹہ اوڑھایا اور اسےگلے سے لگا کے اسے چومنے لگی. مگر فوزیہ جیسے پتھر ہو چکی تھی، اس کی آنکھیں مسلسل پنکھے کو گھور رہی تھیں، ساتھ پڑی چارپائی پہ  تیرھواں پارہ "وَمَآ أُبَرِّئُ "  پڑا تھا جس کے قریباً سارے ورق چرمرائے ہوئے تھے اور سامنے والا صفحہ خون سے لتھڑا ہوا تھا

Thursday, June 10, 2021

جانی جا ‏

اس وقت جویریہ شاہ کی ساری دنیا، سفید کپڑے کے ایک ٹکڑے پہ اٹکی ہوئی تھی جسے رومال کہتے ہیں. اسے اس رومال پہ کچھ لکھنا تھا، وہ جویریہ شاہ جس کے چپل بھی کام والیاں سیدھے کر کے رکھتی تھیں، اسے اپنے ہاتھوں سے اس رومال پہ نام کاڑھنا تھا. ماسی نذراں سے اس نے ایک عدد سوئی اور دو دھاگے کی نلکیاں منگوا لی تھیں جو سامنے پڑی تھیں. اس نے پہلے سرخ رنگ کی نلکی اٹھائی، دھاگہ سوئی میں ڈالنا بھی ایک لمبی جدوجہد کے بعد ممکن ہوا تھا. سرخ رنگ سے رومال کے چاروں طرف ایک لائن بنانے کی اس کی کوشش کامیاب تو ہو گئی مگر لائن سیدھی کہیں سے بھی نہیں تھی. اس نے سر جھٹکا اور پھر سے دوسری نلکی، جو کہ گہرے سبز رنگ کی تھی، کا دھاگہ سوئی میں ڈالنے کی کوشش میں جت گئی. اس کے بالوں کی لٹیں دائیں بائیں سے اس کے چہرے پہ جھول رہی تھیں، ماتھے اور ہتھیلیوں پہ پسینے کی نمی تھی اور وہ اپنے تئیں دوسری لائن سیدھی بنانے میں مگن تھی. وہ لائن ختم ہوئی اور اس نے دھاگہ دانتوں میں لے کے کاٹ دیا. "ہمممم... سیدھی نہیں ہیں مگر بری بھی نہیں لگ رہیں" تسلی نما سرگوشی کرنے کے بعد اس نے سرخ رنگ کی نلکی دوبارہ اٹھائی اور رومال کے بالکل درمیان "جانی" کاڑھنے لگی. اس کی سانسیں دوڑ رہی تھیں اور نام لکھتے ہوئے اس کے گال سرخ دھاگے کی نلکی جیسے ہو رہے تھے. "جانی" لکھنے کے بعد اس نے اپنے نام جویریہ کا" JA"بھی لکھا اور رومال کو بھری آنکھوں سے دیکھنے لگی. اس نے رومال کو جہاں نام لکھا تھا وہاں سے چوما اور قمیض سے دھڑا دھڑ سر پٹختی چھاتی سے لگا کے آنکھیں موند کے لیٹ گئی

رضوان اشرف المعروف "جانی" گورنمنٹ کالج فرید پور میں پڑھتا تھا، بوائز کالج کے بالکل سامنے گرلز کالج کی عمارت تھی. وہیں کہیں آتے جاتے جویریہ شاہ نے جانی کو دیکھا اور پوری جان سے دل ہار بیٹھی
جانی بالکل ویسا ہی تھا جیسے کالج جاتا ہر لڑکا بننا چاہتا ہے، لڑاکا تھا، ڈر نامی بلا سے ناواقف تھا، دوستوں کے ساتھ مل کے چھوٹی موٹی چوریاں بھی کر لیتا تھا. غیر نصابی سرگرمیوں کی جان تھا جانی.. بسوں ویگنوں والوں کو مارنا پیٹنا، سڑکوں پہ اور کالج میں ہڑتالیں کرنا، سٹوڈنٹس کے ہر مسئلے کے لیے حاضر ہوتا تھا. اس کا رعب کالج کے پروفیسرز اور پرنسپل تک تھا
جانی جیسے جلتی آگ میں بـے ڈر کودنے کو تیار رہتا تھا. اس کے ماں باپ ٹرین حادثے میں اس کے بچپن میں ہی چل بسے تھے، باپ کی طرف سے کوئی بھی قریبی نہ تھا اور ماں کی طرف سے صرف بوڑھے نانی نانا. ایک ماموں تھے بڑے مگر وہ اپنے بیوی بچوں سمیت مدتوں پہلے فرانس جا چکے تھے. بوڑھے نانی نانا نے پالا اور بوڑھوں ہڈیوں کے سہارے نے اسے اپنے خوف سر کرنا  بچپن سے ہی سکھا دیا تھا

جویریہ نے اپنی سہیلیوں کے ہاتھوں جانی کو کئی منہ زبانی اور لکھے ہوئے بھی پیغامات بھیجے، محبت کے اقرار نامے لکھے، اس کی طرف سے جواب کے انتظار نامے بھی بھیجے مگر جانی کا جواب ہر بار ایک ہی رہا "آپ بہت اچھی ہیں، میرے دل میں آپ کے لیے بہت عزت ہے" بس یہ دو جملے تمام تر پیغامات اور خطوط کا جواب ہوا کرتے تھے. رومال کو دیکھ کے جانی کے چہرے پہ کئی رنگ اترے مگر اس نے رومال بہت سلیقے سے تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھ دیا اور "بہت خوبصورت ہے، بہت شکریہ" کا جواب دے کے چل پڑا تھا. ہر بار ایک سا جواب سن کے بھی جویریہ کے اندر محبت کے دریا پہ کوئی بند نہ بندھ سکا، بلکہ دریا کی لہروں میں اور مدوجزر اٹھنے لگتے

جویریہ شاہ، کالج کے چوتھےسال میں تھی جب اس کی اچانک شادی کا شور اٹھنے لگا. اس کا رشتہ اس کے پیدا ہوتے ہی پھوپھی زاد سید امداد عالم شاہ سے طے ہو چکا تھا، اس کی پھوپھی کی بیماری مزید بگڑنے پہ جلد از جلد جویریہ کی رخصتی کا اعلان ہو گیا. جویریہ بہت روئی، مزید پڑھنے کے لئے گڑگڑائی، کتنے دن کھانا پینا چھوڑے رکھا، ہمت کر کے کسی اور کو پسند کرنے کی بات بھی کہہ ڈالی اور اس پہ ابا سے زندگی میں پہلا تھپڑ بھی کھایا، سگے بھائی نے پستول تان لی تھی، اماں نے کمرے میں اکیلے کتنے ہی تھپڑ مارے مگر..... سادات خاندان زبان سے کہاں پھرتا ہے! سو اس کا کالج فوراً ختم کروا کے گھر بٹھا دیا اور دو ہفتے بعد جمعہ کے دن اس کی رخصتی طے ہو گئی

وقت کی دم پہ کسی نے تیلی سی لگا رکھی ہے، وقت دوڑتا ہے اور سر پٹ دوڑتا ہے.. کل جویریہ کی مہندی کی رات آنے والی تھی، اس نے اپنی سہیلی عاصمہ کے ہاتھ ایک آدھے پھٹے کاغذ پہ ایک پیغام جانی کو بھیجا "جانی، صرف ایک بار تو مل لیتے"
جانی کی آنکھیں رقعے پہ اٹکی ہوئی تھیں، ایک ہی جملہ جانے کتنی بار پڑھنے کے بعد اس کے سر اٹھایا اور عاصمہ کو کہا "اسے کہنا، کل رات جب مہندی ہو رہی ہو گی، میں آؤں گا" عاصمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں. دوست یار اسے سارا دن سمجھاتے رہے کہ مت جا، مارا جائے گا، وہ سید ابرار الحق حسینی کی بیٹی ہے، سارا علاقہ ان کے نام کے آگے سجدے کرتا ہے، سارا خاندان وہاں ہو گا، اسلحہ ہو گا.. مارا جائے گا... مگر جانی کا ہر بار ایک ہی جواب رہا "اس پاگل لڑکی نے تو محبت کی ہے،کم از کم اس کی محبت کا مان تو رکھ سکتا ہوں، میں جاؤں گا" اور پھر مہندی کی شام آ گئی

گھر کے مرد صحن میں بیٹھے تھے اور خواتین دوسری منزل پہ تھیں.. نیچے سید امداد اپنے گھر والوں کے ہمراہ پہنچا تو گھر کی خواتین سب نیچے چلی گئیں
جویریہ پیلے جوڑے میں، کلائیوں، گلے، کانوں اور ماتھے پہ تازہ سرخ گلابوں کے زیور پہنے بیٹھی تھی. اچانک عاصمہ نے اس کے کان میں دھماکا کیا "وہ.. وہ اوپر آ رہا ہے، گھر کے پچھواڑے پائپ پہ چڑھ کے اوپر آ رہا ہے" جویریہ دوڑتی چھت کے مغربی کونے کی طرف لپکی.. جانی پائپ پہ چڑھنا چھت کی منڈیر تک پہنچ چکا تھا. جویریہ نے ہاتھ بڑھا کے اوپر کھینچا اور اوپر آتے ہی وہ اس سے لپٹ گئی "تم کیوں آئے ہو، مجھے پتا تھا تم آؤ گے، تم پاگل ہو تم کیوں آئے ہو "... وہ کمرے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ کچھ لڑکیاں دوڑ کے سیڑھیاں اتر گئیں.. عاصمہ نے ان کے جاتے ہی سیڑھیوں کا دروازہ اوپر سے بند کر دیا.."تم جاؤ، تم جاؤ پلیز اب سب کو پتا چل جانا ہے تم جاؤ" جویریہ کمرے میں کھڑی تھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، گلے میں لٹکتے گلاب کا ہار مسلسل دھڑک رہا تھا، جانی مسکراتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا..جویریہ اسے بس دیکھے جا رہی تھی اور وہ سر جھکائے بیٹھا تھا. اچانک نیچے سے ایک شور کا طوفان اٹھا اور چیختے چلاتے سیڑھیوں کے دروازہ توڑا جانے لگا.. جویریہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچنے لگی "جانی اللہ کا واسطہ ہے جاؤ جاؤ جاؤ" جانی آرام سے اٹھا جیسے کسی باغ میں لگے بینچ میں دھوپ سینک کے اٹھ رہا ہو "تم نے بلایا تھا تو میں آ گیا، اب تم مطمئن ہو تو میں جاؤں گا"... جویریہ نے تین بار اپنا سر اس کی چھاتی پہ مارا اور بولی "جانی، میں کہہ رہی ہوں جاؤ اب "... جانی نے اس کے ماتھے پہ لٹکتے گلاب کے پھول کو انگلی سے ہلایا اور "بہت خوش رہنا، خدا حافظ" کہہ کمرے سے نکلا. جویریہ کا 'خدا' ابھی 'حافظ' تک نہیں پہنچا تھا کہ سیڑھیوں کا دروازہ توڑ کے اس کا بھائی اور باقی کزن چھت پہ اسلحہ لیے پہنچ گئے. جویریہ چیخنے لگی "جانی، جلدی کرو" اس کے بھائی نے پستول اس کے سر پہ مارا، اور وہ نیچے گر گئی، پیلا جوڑا سرخ ہونے لگا
جانی نے درمیان میں پائپ چھوڑا اور چھلانگ لگا دی مگر اس سے پہلے کہ اس کے قدم زمین چومتے، اوپر سے گولیوں کی بارش نے اسے زمین پہ پٹخ دیا

تھانیدار ارشد چیمہ جائے وقوع پہ پہنچ چکا تھا، شادی والے گھر می چوری کی کوشش کا پرچہ جانی کے نام کٹ چکا تھا اور اس کی لاش گھر کے پچھواڑے پڑی تھی. تھانیدار چیمہ نے لاش کو دیکھا، اس نے لاش کی جیبوں کی تلاشی لی. قمیض کی نچلی داہنی جیب سے صرف ایک رومال ملا. اس نے، سلیقے سے تہہ، رومال کو کھولا اور لاش کے چہرے پہ ڈال دیا. رومال کے درمیان میں "جانی JA" لکھا ہوا تھا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...