Saturday, December 23, 2017

اَن سُنا سوال

"موسیقی اگر روح کا کھانا ہے تو شاعری اس کھانے کا نمک ہے"... یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کندھے پہ جھولتے بیگ سے فیض کی 'نسخہ ہائے وفا' تھما دی .. "تمہاری آواز اچھی ہے مگر گانا سیکھے بنا کچھ نہیں ہو گا، اور تمہارے گھر والے اپنے چوہدری پُتر کو میراثی تو نہ بننے دیں گے، سو شاعری پڑھا کرو"...
اب نسخہ ہائے وفا چارپائی کے سرہانے دھری تھی اور میں اس منظر کے نشے میں گم جب کتاب نکال کے دیتے سمے اس کے بال منہ پہ جھک آئے تھے جیسے رات بڑھ کے چاند چُوم لے..
ہمارا خاندان گاؤں کا باعزت، بارسوخ خاندان تھا... اب فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ باعزت ہونے کی وجہ سے با رسوخ تھا کہ بارسوخ ہونے کے کارن عزت دار.... ابا جی خاندان کے بڑے تھے سو ان کا حکم قریب قریب حکمِ خداوندی تھا.. ایسے بارعب شخص کا بیٹا گانے گاتا پکڑا جائے تو 'واجب القتل' ہی گردانا جائے گا.. یہ بات مجھ سے بہتر "شائستہ" نے جان لی تھی.. شائستہ وہی جس کے رات جیسے بال اس کے چاند جیسے چہرے کو چومتے پائے گئے تھے..
شائستہ ساتھ والے گاؤں سے تھی.. وہ کشمیری خاندان سے تھی اور اس کی خوبصورتی اور اعتماد اس کے کشمیری ہونے کی دلیل تھی ... شائستہ اور میرا کالج ایک ہی تھا.. ہم ایک ہی ویگن پہ کالج جایا آیا کرتے تھے.. کالج ایک ہی تھا گو کہ ایک دیوار بیچ میں تھی مگر فنکشنز وغیرہ اکٹھے ہوتے تھے اور یہی دن لڑکوں کی چاندی کے ہوتے تھے...
مجھے شائستہ سے محبت تھی.. بہت تھی.. اور وہ یہ جانتی بھی تھی مگر کبھی یہ اعترافِ جرم اس نے نہیں کیا تھا... مجھ سے جب بھی ملتی، بات کرتی، مگر میری محبت کا سوال ہمیشہ ان سنا کر دیتی...
وقت گزرا، بی اے کے  امتحانات سے قبل ہی میں اہم پی اے بن گیا اور میری مصروفیات میرے شوق اور میری محبت کے آڑے آنے لگیں..
پھر صوبائی اسمبلی کی وزارت ہاتھ لگ گئی اور میں لاہور منتقل ہو گیا.. سیاست، جوڑ توڑ، فنڈز، مخالف پارٹی سے بیر اور الیکشنز،بس یہی میری کل کائنات تھی... چھوٹا بھائی جب کچھ بڑا ہوا تو میں ایم این اے کی سیٹ پہ جا براجمان ہوا اور چھوٹا میری سیٹ پہ... ایک بہت بڑے سیاسی خاندان کے گھر شادی بھی ہو گئی.. تین بچے بھی ہوگئے... کبھی کبھار گاؤں کا چکر لگتا تو وقت ملنے جلنے میں ہی کٹ جاتا...
کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن کرتے وقت ایسا بھاگا کہ بالوں میں سفیدی بھر گیا... بچے جوان ہو گئے.. بڑا بیٹا سیاست میں، منجھلا کاروبار میں جا لگا... سب سے چھوٹی بیٹی کالج جانے کو تھی..
پھر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آیا اور عمر ارباب خان میرا بڑا بیٹا میری جگہ لے چکا تھا.. اور میں مہر ارباب خان اپنے گھر کا ہو رہا.. گھر کی لائیبریری میں جا گھستا اور کتب بینی کرنے لگتا..
اس دن رابعہ میری بیٹی میری جان چکن سُوپ لیے ڈرائنگ روم میں آئی جب میں سٹڈی روم میں جانے کے لیے کھڑا ہی ہوا تھا..
"بابا یہ لیں چکن سوپ اور میری ایک بات ہے جس پہ آپ کوئی اعتراض نہیں کریں گے" اس کے اس لاڈ بھرے انداز گفتگو کا میں دیوانہ تھا ..
"حکم کریں مہاراج"... ہم چلتے چلتے سٹڈی روم میں آ چکے تھے اور میں اتنی کتابوں میں کسے پڑھوں یہ سوچ رہا تھا.. رابعہ نے چکن سوپ میز پہ رکھا اور میرے ساتھ کتابوں کی ونڈو شاپنگ کرنے لگی..." بابا میں میوزک کرنا چاہتی ہوں اور پلیز نو اعتراض بابا"... یہ کہتے ہوئے  شیلف کے نچلے حصے سے کتاب اٹھاتے ہوئے اس نے سَر جھکایا تو اس کے بال منہ پہ جھک آئے جیسے رات بڑھ کے چاند چوم لے اور پھر 'نسخہ ہائے وفا' میرے سامنے رکھتے ہوئے وہ ایک سوال بنی مجھے دیکھنے لگی... 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...