Wednesday, November 26, 2014

کالے رنگ کا زمانہ

گرمیاں جا چکی تھیں اور سردیوں نے پورے گاؤں میں خیمے لگا لیے تھے.. گاؤں کے باہر زمینوں کی طرف نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی منگولی شہزادے کا لاؤ لشکر یہاں سے گزرا ہو جو جاتے جاتے درختوں کے لباس بھی اتار گیا ھو.. ہر شے اُجڑی اُجڑی لگتی تھی..
ایسے ہی ایک ننگے درخت کے نیچے ھم پانچ سات لڑکوں کی ٹولی 'چاچا پھَلیا'  کے گرد ڈیرا جمائے بیٹھی تھی.. گاؤں میں ھر مَرد 'چاچا'  اور ھر عورت 'خالہ'  ہوتی ہے.. چاچا پھَلیا کی وجہ تسمیہ ھمیں نہیں معلوم کیا تھی اور اس عمر میں ھمیں کامل یقین تھا کہ چاچا کے شناختی کارڈ پہ بھی نام "چاچا پھَلیا"  ہی ہو گا..
چاچا اپنی تین عدد بھینسوں کو چرانے ھر روز صبح سے شام ایسے ہی کھیتوں میں کرتا تھا.. اور ھمیں کبھی کبھی کہانیاں سنایا کرتا تھا.. پڑھا لکھا تو تھا نہیں مگر جانے خود کہانیاں بنایا کرتا تھا..
یہ اُس دن کی بات ہے جس دن چاچا پھلیا ایک ننگے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور ھم اس کے گرد.. چاچا نے آگ جلا رکھی تھی اور ھم سب اپنی اپنی چادروں میں لپٹے بیٹھے تھے.. تبھی چاچا بولا،
"کالے رنگ کا زمانہ آنے والا ہے، شاہ کالے(سیاہ کالے) رنگ دا.. جَدوں مَن کالا تے دَھن وی کالا ہو گا اور لوگ کالے کرتوت کر کے سینہ ٹھونکا کریں گے"
ھم سب بِٹر بِٹر چاچا کو دیکھ رھے تھے، ہماری آنکھوں کا سوال "کیا مطلب"  چاچا سمجھ گیا تھا..
"کھوتیو، تم لوگ ابھی نہیں سمجھو گے یہ گَل.. وقت آئے گا اک واری جب سب کو یاد آئے گی میری باتاں"..
اور میں ٹھہرا سدا کا منہ پھَٹ اور باغی،  "چاچا گر ہمیں سمجھ نہیں آتی تو کیوں ہمارا وقت کھوٹا کرتا ہے، ہم کرکٹ ہی کھیل لیتے".. اور میں اٹھ کھڑا ہوا..
چاچا نے میرا بازو کھینچ کے بٹھا دیا
"  اوئے کھوتے کے کُھر، یہ گَل خالص تیرے لئ ہے، بیٹھ تے سُن..
اک چیز ہوتی ہے بندے کا بُت(جسم)  اور اک چیز ہوتی ہے بندے کا مَن جنھوں پڑھے لکھے کچھ اور ہی کہتے ھیں"
جعفر ہم سے دو تین سال بڑا تھا وہ بولا کہ چاچا اسے ضمیر کہتے ھیں.
"ھاں ضمیر، وہ تو اپنے گاؤں کا درزی تھا، کب کا مَر چکا.. خیر جو مَن ہوتا ہے نا وہ بڑا رَنگلا (رنگین)  ہوتا ہے، بہت سوھنے سوھنے رنگ پَر اس میں کالا رنگ نہیں ہوتا، جیسے بارش ہو تو چوھدری اللّہ داد کی زمینوں کے اوپر ' گُڈی گُڈے دی پِینگ'  (قوسِ قزح) بنتی ہے بالکل ایسے ہی.. صاف سُتھرا مَن..
پَر جب بندہ کالے کام میں پڑتا ہے، جب جھوٹ سے اپنی چیز بیچتا ہے، اور اِک اِک پیسے کے پیچھے اپنا کام بیچتا ہے تو مَن کالا ہونے لگتا ہے، یار دکھیو کھوتیو، جو اپنا کام بیچے وہ اپنا ایمان بیچ رھا ھوتا ہے.. کالے رنگ دا زمانہ آ رھا ھے، جب ہر طرف کالک ہی کالک ہو گی اور جس کا مَن کالا ہو گا اُسے سب ہَرا بَھرا دِکھے گا..
اِک گَل یاد رکھیو، اپنی عینک دے شیشے صاف رکھیو تے کسے دی عینک ادھار نہ لیو.. تے کالی عینک تے کَدی وی نئیں!!
کالے رنگ دی اک  بڑی مصیبت ہوتی ہے کہ ہر رنگ کو اپنے جیسا کالا کر دیتا ہے.. کالا شاہ.. کالا"..
چاچا نے ایک نظر اپنی کالی بھینسوں کو دیکھا اور سفید کُرتے کے اوپر کالی چادر کی بُکل مار کے چل پڑا

Monday, August 04, 2014

بھینسا اور انسان

ہمارے گاؤں میں اسے "مسجد کا مالی"  کہا جاتا ہے، آپ کے گاؤں کی خبر نہ رکھنے پہ معذرت.. 
وہ ایک بھینسا جسے تُو فلاں سمجھتا ہے
کئی بھینسوں کو  کرتا ہے صاحبہ اولاد!!

اکثر ایک گاؤں میں ایک ہی بھینسا ہوتا ہے، دیکھنے میں تو یہ بھی آیا کہ تین چار گاؤں کی بھینسوں کا فقط "ایک ہی دولہا"  ہوتا ہے، یہ اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ فی میل بدل جاتی ہے "میل"  کبھی نہیں بدلتا...
مسجد کے مالی، یا آپ جو بھی اسے کہتے ہیں، کو کُھلی چھُٹی ہوتی ہے جو مَن میں آئے کرے.. آئی مِین کہ وہ کسی ایک جگہ پہ رات نہیں کاٹتا، مسافر جیسا ہوتا ہے.. جہاں رات چلی آنکھ لگا لی، درویشی صفت ہے.. جہاں سے جو ملا وہی کھا لیا، فقیر بھی ہوتا ہے.. جس کی فصل چاہے برباد کر دے اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، گُلو بٹ کا باپ دادا لگتا ہے... اب تو گاؤں کے لوگ اُْسے "امریکا امریکا"  کہہ کے بلاتے ہیں، ویسے بھی اس کے سینگوں اور جارج ڈبلیو بُش کے کانوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے... گاؤں کے لوگوں کا کُھلے سانڈ کو امریکا کہنا اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ اب گاؤں دیہات کے لوگ بھی "انفارمیشن" رکھتے ہیں.. 
پتا نہیں کیوں اس کو کبھی کبھار جیسے "پاگل پنے"  کا، دورہ سا پڑ جاتا ہے، تو پھر اس سے بچنا نا ممکن ہوتا ہے، بانو قدسیہ جی کی "راجہ گدھ"  کھنگال ڈالی مگر اس کے پاگل پن کی وجہ ایسے ہی غائب ہے جیسے طاہر القادری کی صداقت...
جوانی میں گاؤں کا ہر چھوٹا بڑا چوہدری اسے ایسے عزت سے گھر لاتا ہے جیسے..... اب رہنے دیں کچھ زیادہ ہو جائے گا... اور یہ بھی نواب کا پُتر چھاتی پُھلا کے آتا ہے اور کچھ ہی دیر میں سَر اٹھا کے ہلکی سی طنزیہ سمائل دیتا گاؤں سے نکل جاتا ہے..
مگر بڑھاپا سچ کہتے ہیں کتے پہ بھی آتا یے تو بُرا ہی آتا ہے.. بوڑھے بھینسے کا دکھ کیسے سمجھے، نہ کوئی بیوی دکھ سکھ کی ساتھی، نہ اولاد کا پتا.. اولاد بھی اسی کی ہوتی ہے چاہے ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیں مگر اتنی اولاد ہونے کے بعد بھی کَھجل خوار ہی ہوتا ہے، کوئی "اولڈ ہاؤس"  بھی تو نہیں ہوتا نا..  میاں صاحبان ایسے دکھ سمجھتے ہی ہوں گے امید ہے کچھ "ایکشن"  لیں گے. .. 
انسان اور بھینسے میں کم ہی فرق ہوتا ہے، بھینسا اپنی طاقت اور زور کی اکڑ پہ سارا گاؤں آگے لگائے پھرتا ہے اور انسان کبھی طاقت، کبھی دولت اور کبھی اولاد کے غرور میں ظلم کی حدیں توڑتا جاتا ہے..
بھینسے کے "پاگل پن"  کی وجہ تو ابھی تک نا معلوم ہی ہے جیسے عام شہریوں کے قاتل ہمیشہ نا معلوم ہی ہوتے ہیں، مگر انسان اکثر و بیشتر اپنی "اندھی عقیدت"  میں سُدھ بُدھ گنوائی پھرتا ہے...
جیسے کہتے ہیں کہ بہار کے اندھے کو ہَرا ہَرا سُوجھتا ہے ایسے ہی عقیدت کے اندھے کو "انقلاب"  دکھائی دیتا ہے (اس سے مُراد "گرین انقلاب"  تو قطعی نہیں، ہاں جی)..

Thursday, April 17, 2014

ہم زاد سے ملاقات.. اِک اذیّت

ملاقات باعثِ الفت ہوتی ہے مگر صاحبو میں جب بھی اس شخص سے ملا ہوں میرے دماغ کے فیوز اُڑ جاتے ہیں .. پل پل میں رنگ بدلتا ہے جیسے آج کل فلمی ستاریاں ( ستاروں کا مؤنث) کپڑے بدلتی ہیں.. سچ کہوں تو مجھے اس سے ملنے کا کبھی بھی شوق نہیں رہا نہ ہی میں نے ملنے کی کوشش کی ..ایک عجیب سا ڈر یا کیا کہوں اس کیفیت کو.. بس سیدھی بات کہ نہیں ملنا چاہتا مگر کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی یہ مجھے ٹَکر جاتا ہے ..
ابھی کوئی مہینہ بھر پہلے ملا تو آنکھیں سوجھی ہوئی اور چہرہ کم نیند سے سُوجھا ہو تھا،بچ کے نکلنا چاہا مگر صاحبو اس سے بچ کے نکلنا میرے بس کی بات ہی نہیں .. حال احوال پوچھا تو تقریبًا رو دینے کو تھا .. کہنے لگا کہ تَھر پھر مَر رہا ہے،شام کے مہاجر بچے پتھروں کے سرہانے پہ سوتے ہیں، فلسطین میں کب کہیں سے گولی چلے اور بچہ سکول جاتا جاتا جان سے جائے پتا بھی نہیں چلتا ، پاکستان میں اسکول جاتے بچے ماں لاکھوں دعاؤں کے سہارے بھیجتی ہیں.. مجھے یہ بچے سونے نہیں دیتے ساری رات ان بچوں کو کندھوں پہ اٹھائے ٹہلتا رہتا ہوں،سو نہیں پاتا،گردن درد سے چٹخ رہی ہے ..
میں تو جان چُھڑا کے بھاگ آیا .. بھئی تجھے کیا پڑی ہے تو اپنی زندگی سیٹ کر، جو ہونا ہے سو ہونا ہے، جس کی جیسے لکھی .. اب بتاؤ ایسے سنکی سے کون ملاقات چاہے گا ؟؟

ڈیڑھ ہفتے پہلے گھر کی گھنٹی بجی دروازہ کھولا تو سامنے کھڑا تھا،شیو بڑھی ہوئی تھی اول جلول سے کپڑے پہنےتھے، اب اور کیا کہتا اندر لے آیا کھانے پینے کا پوچھا تو کہنے لگا کہ  کھانا کھایا ہی نہیں جاتا .. میں سمجھا کہ کوئی گلے یا پیٹ کا مسئلہ ہو گا .. کہنے لگا کہ عورت جو ماں سے لے کے بیٹی،استاد سے لے کر نرس تک ہر رنگ میں ہر حال میں باعثِ احترام و عزت ہے، ہر اسلامی ملک میں اتنی بے قیمت اتنی خوار و رسوا کیوں ہے ؟؟ اسلام اور حضورِ اعلی کا کردار عورت کی عظمت کا نشان ہے .. بیوی،بیٹی،دائی غرضیکہ ہر رشتے ہر تعلق میں عورت کی عزت آپ کی زندگی کا لازمی جزو ہے پھر ہم مسلمان عورت کو پاؤں کی جوتی کیوں بنانے پہ تُلے بیٹھے ہیں ؟؟ ہم کسی بھی عورت کو عزت نہیں دیتے اور پھر غیرت کے نام پہ قتل کر کے بڑے حسبی نسبی بنتے ہیں.. میں نے کہا کہ ہوا کیا؟؟ کہنے لگا اب کیا کیا بتاؤں بس تم " دِیا خان" کی ڈاکومینٹری "Banaz A Love Stroy" کبھی یو ٹیوب پہ دیکھنا . جان جاؤ کہ ہم مسلمان عورت کی عزت کے کتنے قائل ہیں ... اب میں اس وقت "سپائیڈر مین" دیکھ رہا تھا اور موصوف مجھے باناز کی لَو اسٹوری دکھا رہے تھے .. ..  بھئی اب تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ہر بات کا، کھا پی عیاشی کر ... ہر سہولت ہے تیرے پاس انجوائے دا لائف ایڈیٹ ...

ابھی پرسوں کی بات ہے میں دوستوں کے ساتھ bowling سے فارغ ہو کے میٹرو پہ گھر جا رہا تھا کہ اسی میٹرو میں ملاقات ہو گئی... غصہ میں لگ رہا تھا .. ماتھے پہ بَل تھے اور آنکھیں خون اُگلتی لگ رہی تھیں.. کہنے لگا کہ یار یہ مولوی لوگ ہماری زندگیوں میں اتنے انوالو کیوں ہیں ؟؟ ہم بھی پرانے عیسائیوں کی طرح کلیسا اور پادریوں کے کَٹھ پُتلی کیوں بن چکے ہیں ؟؟ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات تو کہہ دیتے ہیں مگر مولوی کا اسلام تو زندگی کی ہر خوشی ہر رنگینی چھین لیتا ہے .. زندگی تو دُور ہم تو ان کی کہا مان کے ایک ہفتہ بھی سکون سے جی نہیں سکتے .. انسان ہیں ہم جانور نہیں کہ ایک کھونٹی سے کھولا دوجی پہ جا باندھا .. اسلام پریکٹیکل کا قائل ہے ... یہ پیری مریدی کے چکر، یہ وظائف اور وِرد یہ دوکانداری چلتی رہنے کے سنہری اصول ہیں..
اُف صاحبو، بیس پچیس منٹ کا سفر اِسی لیکچر میں گزرا ... میرا اسٹیشن آیا تو سانس میں سانس آئی کہ جان چھُوٹی سو لاکھوں پائے .. اتنا سنکی اتنا خبطی بھئ اب تو طے ہے کہ مروت گئی تیل لینے، آئندہ اس شخص سے ملنا ہی نہیں .. اب اس کو کیا بتاتا کہ میں آج رات کو ہی پاکستان سے آئے ایک اعلی حضرت قبلہ و کعبہ مولانا علامہ پیر .... شاہ صاحب مدظلہ العالی کا مرید بننے کے شرف سے بہرہ مند ہونے والا ہوں ... 

Thursday, April 10, 2014

نارویجن پاکستانی اور مساجد کے امام

ناروے سردیوں میں سفید اور گرمیوں میں "گرین" ہوتا ہے .. خوبصورتی بلا کی پائی ہے اس ملک نے ..محتاط اندازے سے ناروے کی کُل آبادی اکیاون لاکھ سے کچھ اوپر ہے.. آبادی کنٹرول میں ہے سو سب سُکھی رہتے ہیں.. کیپٹل "اوسلو" ہے جس کا پرانا نام "کریسٹیانیا" تھا.. اوسلو میں کُل آبادی لگ بھگ پندرہ لاکھ ہے،جن میں غیر ملکی کافی تعداد میں ہیں..
ناروے میں پاکستانیوں کی تعداد قریب قریب چونتیس ہزار ہے جن میں سے لگ بھگ اٹھارہ ہزار پاکستان سے درآمد شدہ ہیں اور پندرہ سولہ ہزار نارویجن پاکستانی ہیں ... ان میں سے کوئی ستر فی صد پاکستانی دارالحکومت اوسلو میں رہتے ہیں..
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف (جس کا وعدہ گزشتہ بلاگ میں کیا تھا).. اوسلو میں مساجد اور ہم مسلمان.. 
اوسلو شہر میں کوئی بیس سے اوپر مساجد ہیں جو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں (یعنی یہاں بھی پہچان "بے اتفاقی" ہی ہے) .. ہر مسجد کو سالانہ حکومتی سپورٹ (گرانٹ) ملتی ہے.. باقاعدہ ممبرشپ فارم بھرنا ہوتا ہے اور آپ ایک وقت میں ایک ہی مسجد سے وابستہ ہوتے ہو اور گرانٹ کی مقدار ممبران کی تعداد پہ موقوف بھی ہے اس لیے سبھی مساجد میں ممبران بڑھانے کی اولمپک ریس جاری و ساری رہتی ہے ..  چند ایک بہت بڑی مساجد شہر کے وسط میں ہیں اور بہت ذوق سے تعمیر کروائی گئی ہیں باقاعدہ مینار بھی ہیں.. ایک مسجد تو باقاعدہ ایرانی طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے ... ان مساجد کی تعمیر میں حکومت با قاعدہ مدد فراہم کرتی ہے اور  قرض بھی لیا جاتا ہے .. بہت شاندار اور بہت مہنگی مساجد تعمیر ہوئی ہیں یہاں..
ہمارے مولویوں کی ذہنی اونچائی یا گرائی کا واقعہ ملاحظہ ہو کہ اسی نوے کی دہائی میں نارویجن حکومت نے مسلم علما کو اکٹھا کیا اور آفر دی بیچوں بیچ اس شہر کے ایک ہی شاندار اور بڑی مسجد ہم تعمیر کرا کے دیتے ہیں جہاں آپ باقاعدہ کلاسز کا اجرا بھی کرا سکتے ہو اور چونکہ آپ لوگ عقائدی اختلافات باہم رکھتے ہو اس لیے ہم جو امام ہو گا وہ حرم سے مکہ شریف سے لائیں گے کیونکہ وہ واحد امام ہیں جن کے پیچھے آپ سب اکٹھے ہو جاتے ہے (حج کی طرف اشارہ تھا) .. اور پھر سب مولویوں کو اپنی اپنی چھُٹی ہوتی دکھائی دی یا وہی شیعہ سُنی دیوبندی وہابی والا دانہ اچھل پڑا اور سب اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ یا چلو دو دو اینٹ کی مساجد "کھول" کے بیٹھ گئے اور یہاں بستے پاکستانیوں کے نصیب بھی اس دن سے بیٹھ گئے ..
اب ہر مسجد ممبران کھینچنے لگی اور اسی کھیچا تانی میں مسجد کی کمیٹی کے صدر جنرل سیکرٹری وغیرہ بھی ہر بار نئے آتے اور ان کی آپس کی چپقلشیں بھی جاری رہیں بلکہ اب بھی ہیں..
اہلسنت والجماعت کی نمائندہ مسجد میں باقاعدہ چاقو چُھریاں چلے اور پھر پولیس جوتوں سمیت مسجد میں گُھسی،نا صرف جوتے بلکہ پولیس کے کُتے بھی ہمراہ مسجد میں تھے ... (اس بات کا ذکر حسن نثار صاحب نے بھی ہفتہ بھر پہلے اپنے ناروے کے متعلق کالم میں کیا).. وجہ کیا تھی .. ووٹنگ کے بعد اب کی بار جو صدر بنا وہ دوسرے گروپ کو منظور نہیں تھا ..اب گروپ بنے اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان گروپ بنا کے صرف لڑا کرتا ہے اقبال کا شاہین جو ہوا ...ایک گروپ دعوی' کرتا تھا کہ ہم نے تو بڑے بڑے عالموں کے نیچے سے مصلّے کھینچ لیے یہ اب کے امام کیا چیز ہیں.. بات ٹی وی اخباروں میں کافی دیر چلی اور ہم نے بطور پاکستانی اور مسلمان خوب داد سمیٹی ...
ایک مسجد کا ذکر جناب طاہرالقادری صاحب کے نام پہلے بلاگ میں کر چکا ہوں جہاں سے پیش امام کو فقط اس بنا پہ نکال باہر کیا گیا ان کا ویزہ بھی ختم کرو دیا گیا کہ اس اللہ کے بندے نے کہہ دیا تھا کہ صرف نبی گناہ سے پاک ہیں اور دنیا کا ہر شخص غلطی کر سکتا ہے بشمول طاہر القادری صاحب اور پھر شیخ الاسلام کے جلال کو گویا آواز دی اور باقی پھر رہے نام اللہ کا ...
ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں اولاد کا ہے کہیں "اسلام" سے دور نہ ہو جائے ... اور یہاں ہم ان کو مسلمان کم اور پاکستانی زیادہ بنانا چاہتے ہیں ... اور اسی کنفیوژن میں ہم ان کو نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا چھوڑتے ہیں... اور یہاں ایک بہت بڑی مسجد جس کے ممبران سب سے زیادہ ہیں باقاعدہ اسلامی اور اردو کی کلاسز بھی چلاتے ہیں،ذرا سُنیے اور سَر پیٹیے کہ امام صاحب نے اپنا ایک رشتہ دار منگوا لیا جو  بچوں کو تعلیم دیتا ہے جو خود مَر کے میٹرک پاس ہے ...
اب اس میں قصور ہم یہاں رہتے پاکستانیوں کا ہی ہے، ہم ان مولویوں کو آج بھی جُھک جُھک کے ملتے ہیں... ایک امام سے پوچھا گیا جب وہ ایک مسجد کی تزئین و آرائش کرا رہے تھے کہ حضرت شاہ جی، وہ فلاں بندہ "پَب" چلاتا ہے  رات دن شراب بیچ کے خوب مال کماتا ہے اور آپ کی مسجد میں وہ سب سے زیادہ چندہ دیتا ہے،شراب کی کمائی کی مسجد جائز ہے؟؟ فرمایا شاہ جی نے کہ وہ پیسہ ہم ٹوائلٹ وغیرہ پہ لگا دیں گے..
ایک امام صاحب جن کو ان کے طالب علمی کے دور میں یار لوگ پیار میں یا چھیڑ میں "مُفتی" کہتے تھے وہ آج تک اسی پہ "پکے" ہو گئے ہیں اور ان سے میں نے عرض کی کہ جناب موسیقی سُننا کیسا ہے؟ فرمانے لگے کہ کیا کرو گے سُن کے.. عرض کی جناب جواب دیں..فرمانے لگے کیا کرو گے سُن کے ... اور پھر باربار پوچھنے پہ وہی جواب ملا..
ایک نوجوان مولوی صاحب سے پوچھا کہ حضور شبِ برات کا ذکر نہ قرآن میں کہیں ملتا ہے نہ صحیح احادیث سے ؟؟ تو تپ گئے حضور کہ بحثی مت جایا کرو ہماری ماننی ہے اور اگر سُنی ہی ہو تو شب برات بھی ہے ...
ایک مسجد میں جلسہ تھا،مسجد کے اندر ہی ٹھنڈے پانی کا کولر تھا..پانی پینے گیا تو گلاس بھر کے کھڑے کھڑے پینے لگا..ایک سبز پگڑی والے مولوی صاحب انتہائی حقارت سے بجائے براہِ راست مجھ سے مخاطب ہونے کے کولر کے پاس کھڑے چاچا جی سے بولے کہ لوگ مسجد تو آ جاتے ہیں انھیں پانی پینے کا طریقہ ہی سکھا دیں.. میں نے ڈائریکٹ مولوی صاحب جو مخاطب کر کے کہا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میں کھڑے ہو کے پانی اسلئے پیتا ہوں کہ میں حضورِ اعلی کو کھڑے ہو کے پیتے دیکھا ہے اور بیٹھ کے بھی اسی لیے کہ حضوراعلی کو بیٹھ کے پیتے دیکھا ہے ..تو مولوی صاحب انتہائی جلال میں اٹھے جیسے طوفان اٹھتا ہے اور "پتا نہیں کون کون سی کتابیں پڑھتے ہیں لوگ" کہتے ہوئے چل دئیے...
معزرت تحریر طویل ہو گئی، مگر مختصر یہ کہ یہاں بھی مسجدیں ظاہری علما اور حقیقتاً کنوئیں کے مینڈکوں کے پاس ہی ہیں.. جب تک اللہ کا نام چلتا ہے (جو کہ قیامت تک چلناہے) یہ اس نام کو خوب بیچیں گے اور توندیں بھریں گے ...رہ گئے ہم تو ہم آج بھی ان سے جُھک کے ملتے ہیں اور کئی بار تو رکوع تک کو چلے جاتے ہیں .. ہم اپنی جہالت میں بہہ رہے ہیں اور وہ ہماری جہالت سے اپنے اپنے مفاد پورے کر رہے ہیں ...
بچوں کا رونا رونے والوں کو عقل کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنی عقل جو خدا نے سبھی کو دے رکھی ہے اسعتمال میں لانی ہو گی اور خدارا بچوں کو علم دیں،کھُلے دماغ دیں اور ان کو خوب سوچنے سمجھنے کا مواقع دیں.. قسم لے لو صاحبو ہمارے بچے ہم سے کہیں سیانے ہیں ... 

  

Friday, March 28, 2014

رضا رومی اک استعارہ

معاشرہ اپنے حادثوں کی بنا پہ بہتر سمجھا جا سکتا ہے .. ایک حادثہ کل بھی ہوا اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا یہ وقتاً فوقتاً ہوتے چلے آ رہے ہیں .. خوبصورت سوچ کے ساتھ ساتھ خوبصورت دل کا مالک،نرم خو، نرم گفتار اور متحمل مزاج "رضا رومی" پہ کل فائرنگ کی گئی جس میں ان کے ڈرائیور مصطفی صاحب اللہ کو پیارے ہوئے اور رضا خود بھی زخمی ہوئے ..
منیر نیازی نے کہا تھا کہ اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے .. تو کچھ ایسا ہی ہے .. اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے سستی چیز "موت" ہے اور "مخیر حضرات" خوب بانٹ بھی رہے ہیں ...
رضا رومی کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ وجہ جاننا چنداں دشوار نہیں .. رضا کی ٹویٹس(جو ناچیز سبق کی طرح پڑھتاہے) اور پھر ان کے پچھلے چند دنوں کے ٹی وی شوز.. اور سب صاف نظر آنے لگتا ہے ... طالبان کی سوچ کی مخالفت!! اور رضا رومی اس میں آپ اکیلے نہیں ہو، گو کہ ہماری آواز اتنی مؤثر شاید نہیں مگر اس سوچ کی بازگشت میں ہماری بھی آواز ہمیشہ شامل رہی ہے اور رہے گی ..
کیسا المیہ ہے اور کیسی قیامت کہ بات پسند نہیں تو زبان ہی بند کرا دی جائے .. ہم کس دور میں زندہ ہیں ؟؟ کسی کی بات سے اختلاف ہونا آپ کے زندہ ہونے کی نشانی ہے اور اختلاف پہ لڑائی اور پھر جان ہی لینے تک آ جانا آپ کے ضمیر کے مُردہ ہونے کا پتا ہے ... رضا کی کئی ایک باتوں پہ میں بھی اختلاف رکھتا ہوں مگر کیا اس بنا پہ ہم گالی گلوچ پھر گریبان تک آجائیں بلکہ جان کو آ جائیں ؟؟ کیسی مُردہ ذہنیت کے لوگ ہیں یہ ... اور پھر صاف نظر آتا ہے کہ الباکستان کی حکومت انتہا درجے کی کنفیوز اور اس مائینڈسیٹ کی پشت پناہی کر رہی ہے .. انصاف ملے گا ؟؟ کہاں سے ؟؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے ...
ابھی ان فائرنگ کرنے والوں کو نا معلوم کہا جائے گا، پھر وزارتِ داخلہ بیان داغے گی کہ ان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا، پھر اس میں طالبان سے مذاکرات "سبوتاژ" کرنے کی غیر ملکی "سازش" ڈھونڈی جائے گی اور پھر چل سو چل ...
بات صرف رضا درمی کی نہیں، رضا رومی کو اک استعارہ سمجھو، جو بات سچ لگے اس بات پہ قائم رہنا اور تجزیہ کرنا، ملکی مسائل پہ بات کرنا اپنے ہم وطن لوگوں کے مسائل پہ اور اصلاح کی بات کرنا .. یہ جرم نا قابلِ قبول ہے؟؟ اس کی سزا کسی کی جان لینا ہے ؟؟
کس مائنڈسیٹ کے ساتھ ہم مذاکرات کی میز سجائے بیٹھے ہیں ؟؟ "سیز فائر" کے دعوے اور قتل گاہیں بھی سجانا ؟؟
صاحبو اختلاف رکھو مگر نفرت نہیں.. اللہ نے ہر انسان کو دماغ دیا ہے اور ہر کوئی اپنی استعداد سے سوچتا ہے .. ظالمو یہ ظلم نہ کرو سوچنے تو دو .. بات تو کرنے دو ... زبان تو نہ کاٹو ...
ساتھیو کان دھرو کہ معاشرہ اپنے حادثوں سے بہتر طور پہ جانا جا سکتا ہے .. آنکھیں کھولو اندھی عقیدت پہ خوبصورت دماغ و دل نہ گنوا بیٹھیو .. بات کہنا سیکھو بات سننا اور سہنا سیکھو کہ اللہ نے سب کو دماغ دے رکھا ہے.. سب سوچتے ہین.. اک دوجے کی سوچ کو برداشت کرو ... اختلاف معاشرے کی اصلاح ہوتا ہے اور جان لینا معاشرے کی موت .. 
زندہ ہو تو معاشرہ بھی زندہ رکھو ..
دکھ تھا بہت دکھ ھوا تھا رضا رومی پہ فائرنگ اور مصطفی کی موت کا پڑھ کے .. رات بھر کام کی چکی میں پسنے کے باوجود مصطفی کی موت اور رضا رومی پہ کچھ سطریں لکھنی ہی تھیں..
اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے .. آمین

Wednesday, March 05, 2014

احسن نے بھائی بہن کو کیوں مارا ؟

وہ پانچ بھائی تھے اور دو بہنیں ..بڑی بہن شادی کے بعد بیرونِ ملک جا بسیں اور بڑا بھائی آصف پولیس میں نوکر ہو گیا.. ہمارے گھر کی مغربی چھت ان کی چھت سے گلے ملتی تھی اس لیے کافی دوستی رہی سبھی سے.. گھر میں ابا جان کا رعب تھا بڑے بھائی آصف سے لے کر کے چھوٹے بھائی احسن تک سبھی ابا جان سے بلکہ اماں جان سے بھی بہت دبتے تھے..احسن چاروں بھائیوں کا لاڈلا تھا چھوٹا جو تھا..زمیں داری ہو یا ڈور ڈنگر احسن کو کوئی نہ کہتا باقی بھائی مل بانٹ کے کر لیتے.. بہت سلجھے ہوئے اور تمیزدار لڑکے تھے پڑھائی میں سبھی ہی بہت اچھے تھے .. وقت گزرتا گیا اور تین بڑے بھائیوں کی اور دوسری بہن کی بھی شادیاں ہو گئیں.. گھر میں میاں بیوی کی ہمیشہ چونچ لڑتی رہتی تھی تمام عمر لڑتے رہے مگر اولاد کی جرات نہ تھی کہ مداخلت کرتے .. پہلے ان کے ابا جان چل بسے اور ماں کا چونچ لڑانے کا ساتھی نہ بچا تو دل بھر گیا دنیا سے اور شوھر کے پیچھے پیچھے دنیا  سے چل دیں.. موت کا غم سخت مگر وقت اور حالات سب بدل دیتے ہیں ...
زمیں دار تھے مگر کوئی بہت زیادہ زمیں یا مربع کے مالک نہ تھے ..مگر پھر بھی ماں باپ کے جاتے جائیداد کی چھانٹ بانٹ شروع ہو گئی.. اس مہنگائی کے ابتلائی دور میں سب بھائیوں کے حصے چَپـہ چَپـہ زمین ہی آنی تھی .. سو آئی مگر لالچ کہ روح تک کے چیتھرے اڑا دے ...
ایک دن اس گھر پہ زلزلہ آیا، سب سے اور سب کے لاڈلے چھوٹے بھائی احسن نے سب سے بڑے بھائی آصف پہ گولی چلا دی .. شدید زخمی آصف ہسپتال پہنچایا گیا .. بات تھانے تک کوپہنچی مگر مسلم لیگ نواز کے ایم این اے جو کہ طالبان کے ساتھی بھی ہیں،ہر بات اپنے ڈیرے پہ پنچایت میں کرتے ہیں..سو اب مقدمہ آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کسی عدالت میں نہیں مگر طالبان کے معتمد ساتھی اور مسلم لیگ نواز کے چہیتے ایم این اے کے ڈیرے پہ چل رہا ہے کہ رہے نام اللہ کا ..
دورانِ مقدمہ احسن نے گولی مارے جانے سے انکار کیا حالانکہ عینی شواہد موجود تھے..مگر بات اس پہ آن رکی کہ مسجد جا کے سب کے سامنے احسن قرآن اٹھائے کہ اس نے گولی نہیں چلائی .. مسجد جھوٹی عزت بنانے اور قرآن قسمیں اٹھانے کو ہی بچا ہے ہم میں ..سو مسلمان کا اسلام قرآن پہ حلف لینا ہی بچا ہے ..سو ہم کیے جاتے ہیں لاڈلے جو ٹھہرے خدا کے .. سارا گاؤں گواہ ہے کہ چھوٹی بہن روتی رہی روکتی رہی کہ قرآن مت اٹھاؤ مگر ماشا اللہ احسن نے مسجد میں قرآن پہ ہاتھ دھرے اور قسم دی کہ اس نے گولی نہیں چلائی.. گاؤن والے دانتوں میں انگلیاں دئیے کھڑے تھے ...
اسی پہ بس نہیں ، پھر ایک دن قیامت ٹوٹی ان کی بڑی بہن اپنے شوہر کے ہمراہ سات سمندر پار سے اپنے گاؤں آئی ہوئی تھیں..ایک دن احسن اپنی بہن کے گھر گیا اور بڑی بہن کو  جو اکثر بیشتر بھائیوں کی مالی امداد بھی کیا کرتی تھیں،کو اتنا مارا پیٹا کہ اَدھ موا کر کے سڑک پہ پھینک دیا اور بہنوئی کو اتنی شدید چوٹیں آئیں کہ انکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے ان کی ... بہن اور بہنوئی کو مارنے کی وجہ ؟؟؟ سنیـے اور سر پہ دو دو ہتڑ مار کے روئیے کہ احسن کو ڈر تھا کہ بہن بھی کہیں جائیداد میں حصہ نہ مانگ لے .. !!!!
احسن نے بڑے بھائی کو اور بڑی بہن کو کیوں مارا ؟؟
حاکم وقت کی آنکھوں سے پٹی کھولی جائے اور وہ حقیقت کی تلخ اور خونیں شکلوں کو دیکھیں .. حالات اس قدر اور اس حد تک خرابی کی طرف جا رہے ہیں کہ کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی .. جن کی محبت اور بھائی چارے کی لوگ اپنی اولادوں کو مثالیں دیا کرتے تھے آخر کیوں اس حد تک آگئے کہ گلے ہی کاٹ دیں اک دوجے کے .. کام دھندہ ہے نہیں ساری عمر بڑے بھائی اور بہنیں کھلا پلا نہیں سکتے .. اک دوجے کا خون پی رہے ہیں لوگ اک دوجے کا ماس کھا رہے ہیں .. اور یہاں سندھ اور پنجاب فیسٹولز میں لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو تیلی دکھائی جا رہی ہے .. خون کھولتا ہے یہ تلخ حقیقتیں دیکھ کے سن کر کے .. جی میں آتی ہے کہ قیامت ہی اٹھا دی جائے .. حشر برپا کر دیا جائے .. دنیا ختم کر دی جائے .. خدا تو نہیں ہیں مگر خلیفہ خدا تو ہیں.. اب اور احسن نہیں پالے جاتے اب اور ماس کھاتے،ہڈیاں چباتے اور خون پیتے لوگ نہیں دیکھے جاتے .. اب انت ہو چکی .. جی میں آتی ہے کہ قیامت ہی اٹھا دی جائے !!!

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...