Tuesday, December 22, 2020

مجرمانہ ‏خاموشی ‏

گونگے دن ہیں راتیں چپ ہیں
رات کے کالے سیاہ دیو کی
سرخ انگارہ آنکھیں چپ ہیں

وقت کے پاؤں جمے ہوئے ہیں
دل کی دھڑکن مر رہی ہے
مرتی کھنچتی سانسیں چپ ہیں

اٹھے ہاتھوں پہ دھول پڑی ہے
لفظوں کے کفن کھلے ہوئے ہیں
دعاؤں کی ننگی لاشیں چپ ہیں

Wednesday, December 16, 2020

لاشاں کس ‏دفنائیاں

‏لاشاں کس دفنائیاں
.... 

ایہہ قبراں نیں کہ
زمین دی چھاتی دے چھالے نیں
تے اینہاں چھالیاں تے
وا وا رُتاں جوبن دیاں آئیاں
جیُون دے چاواں تے مٹی پائی
ایتھے لاشاں کس دفنائیاں

‎#مقصود_عاصی

Sunday, November 15, 2020

کہانی ختم ‏ہوئی ‏

زندگی مجھے اپنے میلوں اور جھمیلوں میں لیے پھرتی رہی اور میں سر پٹ دوڑتے وقت کی دُم زور سے پکڑے دوڑتا کم گھسٹتا زیادہ رہا اور اب ہانپ کے گر چکا ہوں
ابھی ابھی سفید کپڑوں میں ایک خوبصورت نرس آئی تھی، زندہ مسکراہٹ لیے مجھ سے میرا حال پوچھا اور پھر کچھ دوائیں دے کے پھر آنے کا کہہ کے چلی گئی جیسے اسے امید ہو کہ یہ زندگی کی دوڑ سے تقریباً باھر پڑا بوڑھا، اس کے دوسرے راؤنڈ تک سانسیں گھسیٹ ہی لے گا

ایک وقت تھا اور زیادہ دور کا بھی نہیں کہ جب محاورۃ ایک ہی سانس میں ایسی ایسی کہانی سنا جاتا تھا کہ لوگ سانس لینا بھول جاتے تھے. میں نے بچپن سے اب تک، صرف اپنا جہلم شہر دیکھ رکھا تھا مگر میری کہانیاں دہلی اور لکھنؤ کے نوابوں کے ایسے ایسے سربستہ راز کھولتی تھیں کہ سننے والے جیسے خود کو وہیں پاتے ہوں. کبھی مرزا غالب کے ساتھ آم کھاتے ہوئے ہماری گفتگو سناتا تو سننے والے جملوں کو شعر سمجھ لیتے. کبھی روم کی پتھریلی گلیوں میں اٹالین حسیناؤں کے پاس سے اپنا سیاہ گھوڑا دوڑاتے نکلتا تو وہ دیوار کے ساتھ لگ جاتیں اور دور تک ان کی نظریں میرا پیچھا کرتیں اور سننے والے گھوڑے کی ٹپ ٹپ صاف سنتے دکھائی دیتے. کبھی افریقہ کے جنگلوں میں میری شیر سے لڑائی اور پھر ہماری شیر کے مرنے تک کی دوستی کے قصے سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتے.
میں وہاں وہاں پہنچا جہاں تک کا کبھی نام سنا یا پڑھا تھا اور مجھے سننے والے بھی یقیناً اب ویسے ہی وہاں وہاں پہنچتے ہوں گے جہاں تک کی راہ میں انھیں "سنا" آیا تھا

ابھی ساتھ والے بیڈ پہ پڑے میرے ہی ایک ہم عمر کو گھر والے کلمہ پڑھنے کی تلقین کر ریے ہیں اور وہ منہ ہی منہ میں جانے کیا کہہ رہا ہے،وہ اسے اللہ یاد دلا رہے ہیں تو مجھے بھی یاد آیا کہ مجھ میں اور اللہ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں. کہانی یوں ہے کہ نہ میرے آگے پیچھے کوئی ہے نہ اس کے. ہم اکیلے ہیں دونوں.. میں بھی جہلم سے باھر کہیں نہیں گیا اور وہ بھی آسمان کے جانے کون سے کونے میں زندگی کاٹتا رہا ہے، کبھی اسے زمین پہ آتے نہیں دیکھا. دو ٹانگیں کبھی جو پورے جسم کا بوجھ ڈھوتی تھیں، اب وہی دو ٹانگیں سوٹی کے سہارے گھسیٹ رہا ہوں، یقیناً اللہ بھی میری طرح کسی عصا کا محتاج ہو گیا ہو گا. وہ بھی زندگی کے میلوں اور جھمیلوں سے گزرتا گزرتا، لمبی لمبی کہانیاں چھوڑتا اب کہیں بستر علالت پہ پڑا میری طرح سانس کھینچ رہا ہو گا. ہر پانچ چھے منٹ کے بعد اس کی چھاتی سے بھی کھانسی کا طوفان بدتمیزی امڈتا ہو گا اور پھر اس طوفان کے گزر جانے کے بعد میری طرح آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرنے کی ہمت بھی نہ پاتا ہو گا. آپ اسے پانی کہہ سکتے ہیں مگر جب میری عمر تک پہنچیں گے تو آنکھ سے جو بھی نکلے گا، آنسو ہی لگے گا

سچ تو یہ ہے کہ سب کہانی ہے، میں بھی، خدا بھی اور ہم دونوں کی سنائی کہانیوں کے علاوہ میرے اور خدا کے درمیان ایک بات اور بھی مشترک ہے... ہم دونوں مر رہے ہیں 

Friday, November 06, 2020

جمع ‏پونجی ‏

دائیں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں سگریٹ دبائے، بند مٹھی سے کش لگاتا وہ گھر کی طرف جا رہا تھا. گرمی کہتی تھی کہ میں آج ہی دوزخ سے نکلی ہوں. گلیاں چپ تھیں، کتے دیواروں کی چھاؤں میں آدھ موئے پڑے تھے. گھر کے دروازے کی کنڈی جیسے ابھی ابھی لوھار کے ہاں سے نکلی تھی. کنڈی بجانے پہ ثریا نے دروازہ کھولا اور پھر اس کے پیچھے دروازہ کو کنڈی لگا کے چھوٹا سا صحن پار کرتے برآمدے سے کمرے میں جا رکے. پنکھا چل رہا تھا اور وہ سر پہ باندھے کپڑے کو اتار کے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. ثریا چھابڑی میں دو روٹیاں، ایک پلیٹ میں کھکڑی اور بڑے مگ میں لسی لے آئی. ساتھ والے کمرے میں ناہید اور رفاقت ، کالج اور سکول سے آنے کے بعد سو رہے تھے. سارا گاؤں ہی سو رہا تھا مگر وہ روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالتے اور ساتھ کھکڑی کھاتے کسی حساب کتاب میں گم تھا

سب اسے استاد حسابی کہتے تھے گو کہ نام اس کا شوکت علی تھا. وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کام بہت ناپ تول کے اور حساب کتاب لگا کے کرتا تھا. پڑھا لکھا وہ تھا نہیں مگر جوانی کے پہلے سال کنڈکٹری کرتے اور پھر آدھی سے زیادہ عمر ویگن کی ڈرائیوری کرتے وہ کافی سیانا ہو چکا تھا. اپنی ویگن ڈالتے بھی اس نے اِیچی بِیچی کا حساب لگایا تھا
اور آج..... آج اس کے حسابوں پہ عذاب اترے تھے

آج دن میں جب وہ شہر سے گاؤں کا روٹ لگانے کے بعد، اپنے کنڈکٹر جُورے کے ساتھ خالی گاڑی لے کے شہر کی طرف جا رہا تھا تو گاؤں سے باھر وہ پیشاب کرنے کے لیے کھڑی فصلوں می گھسا اور کچھ دور کھیتوں میں اسے ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کی بانہوں میں گھسے نظر آئے. وہ تجسس میں دبـے پاؤں کچھ اور آگے بڑھتا گیا اور پھر اس کے پاؤں جیسے کسی بلا نے جھکڑ لیـے. وہ ناہید تھی، اسی کی بیٹی اور وہ لڑکا گاؤں کا سب سے لوفر اور بدمعاش لڑکا آصف تھا. دوپٹہ اور بیگ زمین پہ پڑے تھے اور آصف کے ہاتھ ناہید کے جسم پہ کہیں رک نہیں رہے تھے
وہ زمین میں گھڑا کھڑا تھا،آنکھیں دھندلا رہی تھیں، اس نے کندھے سے چادر اتاری آنکھیں صاف کیں اور بھاری قدموں سے واپس گاڑی کی طرف مڑ گیا

ثریا نے برتن اٹھائے اور وہ سر پہ چادر باندھتے صحن پار کر گیا. باقی کا سارا دن وہ گاڑی چلاتا رہا اور ذہن میں آندھیاں چلتی رہیں کہ چھوٹا سا گاؤں ہے، سارے گھروں کی چھتیں ایک دوسرے سے سر جوڑے کھڑی ریتی ہیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یوں لمحوں میں چھتیں پھلانگ جاتی ہے، ناہید والی بات جانے کس کس تک پہنچے گی، جانے کس کس تک پہنچ بھی چکی ہو.. اور آصف ،وہ تو سب دوستوں کو چسکے لگا لگا کے سنا رہا ہو گا.. سگریٹ انگلیوں میں دبتے رہے اور راکھ ہوتے رہے اور شام آٹھ بجے تک  وہ گاڑی چوہدری رحم دین کے ڈیرے پہ کھڑی کر چکا تھا. ڈیرے پہ بھینسیں تھیں، چوہدری کے ٹریکٹر تھے گاڑیاں تھیں اور رکھوالی کے لیے دو کتے بھی تھے، سو گلی میں کھڑی کرنے کے بجائے استاد حسابی ڈیرے پہ ویگن کھڑی کرتا تھا

وہ بند مٹھی میں سگریٹ کے دھواں کھینچے اور ایک ہاتھ میں برفی کا شاپر لیے گھر گھسا ناہید کی تو جیسے جان برفی میں بند رہتی تھی .. ناہید نے برفی دیکھی تو لپک کے آئی اور شاپر اس کے ہاتھ سے لے کے اچھلتی رسوئی کی طرف چل پڑی. اس نے نلکے پہ جا کے پہلے مٹی سے اٹے جوتے اور پیر دھوئے، پھر ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اور گیلے ہاتھ آدھے گنجے سر پھیرے تو سر کو کچھ سکون ملا. چارپائی پہ بیٹھا اور ناہید روٹی سالن لے کے آ گئی. حسب معمول ناہید کھانا رکھنے کے بعد اس کے سر اور کندھے دبانے لگی. لقمے اس کے حلق میں اٹک رہے تھے. ناہید اس کی پہلی اولاد تھی، رفاقت ناہید سے چھے سال چھوٹا تھا اور وہ چھوٹی سی تھی تب سے وہ ہر شام اس کے گھر آنے پہ اپنے چھوٹے چھوٹے نرم ہاتھوں سے اس کا سر دباتی اور وہ کھانا کھاتا، وہ ناہید کو اپنی جمع پونجی کہتا تھا

صحن میں چار چارپائیاں پڑی تھیں، درمیان میں ثریا اور رفاقت کی چارپائیاں تھیں جبکہ مشرق میں استاد حسابی اور مغرب کی طرف ناہید سوئی ہوئی تھی. چاند کہیں نہیں تھا اور کالے آسمان پہ تارے ہی تارے تھے. استاد حسابی سیدھا لیٹا تاروں کو گھورتا کسی حساب میں گم تھا. رات گہری ہو چکی تھی اور سونے والوں کی نیندیں بھی گہری تھیں

وہ حساب کتاب لگا چکا تو بـے آواز اٹھا، پائنتی پہ پڑی چارد کو لپیٹ کے رسی سی بنا لی اور دبـے پاؤں ناہید کی چارپائی کی طرف چلا. ناہید بائیں طرف لیٹی ، بایاں بازو سر کے نیچے دیـے، سو رہی تھی.. اس نے رسی بنی چادر اس کی ٹانگوں کے اوپر سے ڈال کے چارپائی کے گرد گرہ لگا کے باندھ دی. پھر دبـے پاؤں اپنے بستر سے سرھانا اٹھایا اور اسے ناھید کے منہ پہ رکھتے ہوئے اس پہ اپنا سارا وزن ڈال کے ڈھے گیا. ناہید اس کے وزن کے نیچے اور بندھی ٹانگوں کے ساتھ زیادہ ہل جل بھی نہ سکی، بس مدھم سی غر غر کی آوازیں نکلتی رہیں اور پھر وہ بھی بند ہو گئیں. وہ ناہید کے اوپر سے اٹھا اور سرھانا بغل میں دبایا، بندھی ٹانگیں کھولیں اور رسی لے کے اپنی چارپائی کے پاس پہنچا. اس نے پلٹ کے ناہید کی طرف دیکھا اور پھر سرھانا اور چادر رکھ کے واپس ناہید کی طرف گیا، اس کی قمیص درست کی اور اس پہ چادر دے کے اپنی چارپائی پہ اس رسی کو چادر بنا کے لیٹ گیا
وہ تاروں کو گھورتا گھورتا غنودگی میں گیا ہی تھا کہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا
اس نے ناہید کی سانسیں بند کرنے کے سب حساب کتاب کر لیـے تھے مگر آگے کی پریشانی نے اس کے ماتھے پہ پسینہ چھوڑ دیا تھا کہ صبح جنازے پہ، پھر گھر افسوس پہ آنے والوں کے لیے، پھر ناہید کے قل، پھر چار جمعراتوں کے ختم اور چالیسویں تک، اس کی ساری جمع پونجی ختم ہو جانی ہے بلکہ بات ادھار مانگنے پہ جا پہنچے گی 

Sunday, October 18, 2020

بغاوت ‏

تم اچھے رہے دوست
جو ماں باپ نے سمجھایا، اسے مان لیا
جو مولوی نے پڑھایا، اسے ایمان لیا
جو سکول میں استادوں نے رٹایا
اسے حق جان لیا

تم اچھے رہے دوست
تم نے سوال نہیں سوچے
صرف جواب یاد رکھے
ہم نے جوابوں میں بھی کئی کئی سوال کھوجے

تم اچھے رہے دوست
تم نے اپنے اردگرد کھڑی دیواروں پہ
رنگ برنگی تصویریں ٹانک دیں
اور ہم
ہم ہر روز انھیں دیواروں سے سر پھوڑتے ہیں
اور اپنے خون سے یہ کالی دیواریں لال کرتے ہیں

Wednesday, October 14, 2020

خودکشی

میں تھک چکا ہوں
اے میری عمرِ رواں
تیرے قدموں کے نشاں
ناپتے ناپتے
گر چکا ہوں
اپنے ہی سائے پہ اوندھے منہ
اپنے ہی بوجھ تلے
ادھڑی ہوئی چند سانسیں
جو ہیں باقی 
انہیں کھینچ رہا ہوں بدن سے
ایسے جیسے
اپنی صلیب کندھے پہ اٹھائے یسوع
چھوڑ رہے ہوں بستی اپنی

Wednesday, September 16, 2020

جلی ‏بہار ‏

صحن کے ایک کونے میں اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی. مجھے سب پھول ایک سے لگتے تھے، ان کے مختلف نام مجھے یاد نہیں رہتے تھے، اماں نے جانے کون کون سے پودے اور پھول لگا رکھے تھے، اماں کو نئے پودے لگانے اور پھول اگانے کا بہت شوق تھا، کیاری کی صفائی بہت دل و جان سے کرتی تھیں

مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور ہم سب گرمیوں کی راتیں کھلے آسمان کے نیچے صحن میں سوتے تھے، رات کو اچانک جب مُوتنے کی حاجت ہوتی تو میں بجائے ٹائلٹ میں جانے کے، جانے کیوں اماں کی لگائی کیاری کا رخ کرتا اور پودوں پہ مُوت دیتا تھا
پہلے پہل اماں بہت پریشان ہوئیں کہ اچھے خاصے بڑھتے پودے کس کارن جل جاتے ہیں، مرجھائے جا رہے ہیں. وہ نئی مٹی لاتیں کھاد ڈالتیں اور میں پھر کسی رات اٹھتا اور کاروائی ڈال آتا. میں اماں کی پریشانی سے قطعی واقف نہیں تھا. سکول، سکول سے گھر، گھر آ کے بھی سکول کے بستے میں ہی گھسے رہنا، یہی تمام دن تھے. لیکن جس دن اماں کی پریشانی کا علم ہوا تب میرے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ پودے پانی سے جیتے ہیں مگر مُوتنے سے جل جاتے ہیں، مر جاتے ہیں. سو وہ دن اور آج کا دن، اماں کی لگائی کیاری پہ پودے جلنے بند ہوگئے، اب اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی ،بھانت بھانت کے رنگوں کے پھول جیسے کسی نے پچکاری چلا رکھی ہو

پھر ایک دن مجھ پہ یہ انکشاف ہوا کہ بہار، صرف اماں کی لگائی کیاری پہ نہیں آئی، رابعہ کے بدن پہ بھی  اتری ہے. وہی رابعہ جس سے بچپن میں لڑائی بھی ہوا کرتی تھی اور واحد ساتھی ہونے کے ناطے ہر کھیل بھی ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے. رابعہ پھوپھی زاد تھی اور ہمارے گھر کے پچھواڑے رہتی تھی
اس دن اچانک آندھی آنے پہ رابعہ اپنی چھت پہ سوکھنے کو ڈالے گئے کپڑے اتار رہی تھی اور تیز ہوا نے اس کی قمیض اس کے جسم سے چپکا دی تھی تو اچانک میری نظر نے بچپن کی ساتھی کی جسم کیاری پہ اتری بہار کو دیکھا. وہ تو کپڑے اکٹھے کر کے نیچے چلی گئی مگر میرے اندر آندھی چلتی رہی

کچھ مناظر آنکھوں میں یوں پیوست ہو جاتے ہیں کہ ہٹتے نہیں. میں بہار کا ڈسا ہوا تھا، مجھے ہر طرف وہی پھول لہراتے دکھائی دے رہے تھے. جسم میں جیسے کرنٹ دوڑتا تھا، ریڑھ کی ہڈی میں جیسے لہریں سی اٹھتی تھیں. ہر وقت بستے میں گھسا ہوا سر، بستے سے باھر آ چکا تھا، جوانی دہلیز پار کر آئی تھی اور دماغ میں منصوبـے چل رہے تھے

زبان اکثر گنگ رہتی مگر رابعہ نے آہستہ آہستہ میری آنکھوں کی بـے تابیاں پڑھتی شروع کر دی تھیں، بچپن کے ساتھی تھے، اس کی ہلکی شرماہٹ، پسندیدگی کے پیغام دینے لگی تھی. اب آمنا سامنا ہونے پہ وہ پہلے کی طرح  بات نہیں کر پاتی تھی، دوپٹہ مستقل کندھوں پہ ٹکنے لگا تھا اور یہ دوپٹہ مجھے زھر لگتا تھا

پھر ایک دن وہ چھت پہ اکیلی مل گئی. یہ وہ دن تھا جس سے اگلے دن مجھے ماموں زاد بھائی کی شادی پہ ان کے گاؤں جانا تھا اور واپسی چار پانچ دن بعد تھی
وہ چھت کے ایک کونے میں بیٹھی کوئی ڈائجسٹ گھٹنوں پہ رکھے پڑھ رہی تھی، ایک چپل پاؤں سے اتری ہوئی تھی مگر دوسری چپل پہن رکھی تھی. دوپٹہ داہنی طرف چھت پہ پڑا تھا، وہ کسی کہانی میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میں اچانک جا پہنچا، وہ اچھل کے کھڑی ہو گئی، ڈائجسٹ گر پڑا اور وہ دوپٹہ اٹھانے کو جھکنے ہی لگی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدھا کیا، اس کا داہنا کندھا میری چھاتی سے آ لگا. ایک پل کو میری طرف دیکھ کے اس کی نظریں نیچے پڑی چپل پہ گڑ گئی تھیں. اس کے گالوں پہ گلابی رنگ چھلک رہا تھا
"چھوڑو ہاتھ، عاطف ہاتھ تو چھوڑو" کہتے ہوئے اس کا داہنا کندھا مزید میری چھاتی میں گھس رہا تھا، میں نے دوسرا ہاتھ پیچھے سے گھما کے اس کے بائیں بازو کو پکڑا اور اس کے گال پہ اپنے ہونٹوں کی مہر لگا دی. اس کی جیسے جان ہی نکل گئی ہو، وہ کسمسائی، میں نے دایاں ہاتھ چھوڑا اور اس کے بدن کی کیاری کے کھلتے پھولوں کو پکڑ لیا، اس بـے جان سی رابعہ میں جیسے بجلی آ گئی، اس نے تڑپ کے خود کو مجھ سے علیحدہ کیا. وہی گال جو گلابی تھے، خون کی طرح لال ہو گئے، اس کی جھکی نظریں اب میری آنکھوں میں جھانک رہی تھیں اور ان آنکھوں میں تیرتا پانی جیسے مجھے چلو بھر میں ڈوبنے کو کہہ رہا تھا. میں نے"رابعہ" کہہ کے ہاتھ بڑھانے کی کوشش ہی کی تھی کہ وہ چنگھاڑی

 "بسسس بسسس بسسس.... دوبارہ نہ میرا نام لینا کبھی اور نہ کبھی میری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنا"

اس کی آنکھیں تھیں کہ پتھر تھے کوئی، وہ چپل، دوپٹہ اور ڈائجسٹ وہیں چھوڑ کے نیچے جا چکی تھی اور میں... میں نے پھر سے بہار اتری کیاری پہ مُوت دیا تھا 

Saturday, September 12, 2020

مالکِ ‏ارض ‏و ‏سماں ‏

توں تے کہندا ایں
میرے حکم باہجھوں
اک پتا وی ہل نئیں سکدا
اک پھُل وی کھل نئیں سکدا
جے کر مَن وی لیـے
تیرے حکم نوں کوئی ٹوک نئیں سکدا

تے فیر تیرے "کُن" نوں زنگ لگ گیا اے
کہ توں وسدا مِینہہ روک نئیں سکدا !! 

Friday, July 31, 2020

تیسری ‏برسی ‏

جیسے گرتے ہیں پت جھڑ میں
جھڑ جھڑ کے خشک پتے
ایسے ہرا بھرا گرتا ہوں میں

لیے پھرتی ہیں تیری یادوں کی ہوائیں مجھے
در بدر، کو بہ کو
دھوپ پھانکتا رہتا ہوں اور پھر
ڈھونڈتا رہتا ہوں تیری آواز کے سائے
چُنتا رہتا ہوں گئے وقت کے ٹوٹے سارے
پھر ان سے بُنتا ہوں تیرے جسم کے تانے بانے

وہی جسم
کہ جس کا اک ٹکڑا ہوں میں
وہی ٹکڑا
جو ہرا بھرا روز ٹوٹ کے گرتا ہے


31 جولائی 2020 

Thursday, July 23, 2020

مرن ‏ویہلے ‏دی ‏گل ‏



میں اج راتیں مر گیا تے
میرے دن تے رات دے ساتھی
مینوں مٹی تھلے نہ دبیں
میں مٹی دا پتر نئیں

اپنیاں پریتاں تے ہورے کدے کدے
دکھاں دی بھانبھڑ بلدی اَگ نال
میں اپنی چھاتی ساڑ بیٹھا واں
میرے کلبوت نوں وی ساڑ دیناں

تے باقی بچے گی راکھ جے میری
اونہوں اُچے کسے پہاڑ تے جا کے
جس پہاڑ توں تھلے جے ویکھیں
نیلے تے ہرے رنگ کا دریا وی دِسے

اوس پہاڑ تے کھلو کے ساتھی میرے
راکھ نوں رکھیں ہوا دی تلی تے
دل نال مینوں وداع کر دیویں
تھلے ویندے دریا دے ناں کر دیویں 

Wednesday, July 15, 2020

یاکاھو ‏کا ‏خوف

یہ تب کی بات ہے جب انسان اپنے جسم پہ لدے بالوں سے کافی حد تک جان چھڑا چکا تھا اور غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہوئے سر کے اوپری خانے کو استعمال کرنا سیکھ رہا تھا اور انسانی نسل کے "آدمی" تک پہنچنے کی راہ ہموار کر رہا تھا . گھر اور خاندان کے مروجہ اصولوں سے کہیں نابلد مگر شام تک غار میں لوٹنے اور اپنے قبیلے کے ساتھ ہی رہنے کے طریقہ کار تک بتدریج پہنچ رہا تھا

اس کا نام 'یاکاھو' فرض کر لیتے ہیں
یاکاھو افریقہ کے جنگلوں سے نکلے اور شمال کی طرف چلتے، رکتے، بستے اور پھر سفر کرتے ایک مسلسل قبیلے کا انسان تھا. اس کی عمر ابھی بہت کم تھی سو زیادہ تر وہ غار کے آس پاس ہی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا تھا

یہ اس دن کی بات ہے جس دن تیز ہواؤں کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی. دن کی روشنی پہ گھنے کالے بادلوں کا سایہ تھا. سبھی غار کے اندر دبکے پڑے تھے اور یاکاھو اپنی غار کے دہانے پہ کھڑا کالے آسمان سے گرتے قطروں کو دیکھ رہا تھا جو زمین پہ سر پٹخ رہے تھے. اچانک آسمان سے تیز روشنی لپکی، یاکاھو کی آنکھیں چندھیا گئیں اور پھر بجلی کی کڑک ایسی تھی کہ جیسے پہاڑ ہی الٹ دے گی. یاکاھو کا دل چھاتی پھاڑ کے باھر نکلنے کو تھا، وہ چیخیں مارتا دوڑا اور اندر غار کی دیوار سے لپٹ گیا. اس نے دیوار کو ایسے اور اتنے زور سے پکڑ رکھا تھا کہ اس کے لمبے ناخنوں کے نشان دیوار پہ پڑ گئے تھے. وہ چیخ رہا تھا اور اس کی ساتھیوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور اپنی زبان میں اسے تسلیاں دینے لگے
یاکاھو کی زندگی کی یہ پہلی موسلادھار بارش، بجلی کی چمک اور گرج تھی. رات کو بادل گرجنے اور بارش کے پتھروں پہ گرنے کی آوازیں اس کے اندر خوف کو مسلسل بڑھاتے رہے اور وہ اسی خوف کے جھولے پہ جھولتا سو گیا

صبح اٹھا تو آسمان صاف نیلا تھا اور سورج بھی خوب چمک رہا تھا. وہ سارا دن غار کے ارد گرد کھیلتا رہا اور پھر رات کو آسمان کے صبح شام بدلتے رنگوں، آسمان سے برستی بارش، آسمان سے گرتی بجلی اور آسمان سے ہی آتی کڑکتی آوازوں کے بارے خوف کو تھپکیاں دیتے سو گیا

یاکاھو کچھ بڑا ہوا تو اس نے اپنے اندر آسمان کے خوف کو ایک نیا نام دیا اور اس خوف کو دوسرے ساتھیوں کو سنانے لگا. پہلے پہل سب اس کی باتوں پہ دانت نکالتے رہے مگر وہ اپنی بات پہ اڑا رہا. اس کا کہنا تھا کہ اوپر کوئی بہت بڑی بلا ہے جو طاقتور بھی بلا کی ہے. جو آسمان میں رہتی ہے اور وہ وہیں سے کبھی پانی پھینکتی ہے اور کبھی روشنی سے ڈراتی ہے، زیادہ غصہ ہو تو بہت زور سے چیختی چنگھاڑتی ہے جس کی آواز سے سب دہل جاتے ہیں، درخت گر جاتے ہیں پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں. پھر جب وہ بلا سو جاتی ہے تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے. سارے میں روشنی پھیل جاتی ہے. ہمیں اس آسمانی بلا کو منانا چاہیے، ہم اپنے اوپر حملہ آوروں سے نمٹ سکتے ہیں، انہیں مار سکتے ہیں بھگا سکتے ہیں مگر ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اسے دیکھ ہی نہیں سکتے. وہ سارے آسمان پہ پھیلی ہوئی ہے، ہمیں اس کے آگے اپنے سر جھکا دینے چاہئیں اور اس سے معافی مانگتے رہنا چاہیے تا کہ اس کا قہر ہم پہ نہ اترے

یہ انسانی قبیلے کے یاکاھو کا پہلا خوف تھا جسے "خدا" کا نام دیا گیا 

Saturday, June 20, 2020

باجی ‏تانیہ ‏ ‏

چھت پہ بنے کمرے سے نیچے فرش تک لال نیلی پیلی لائٹیں لٹک رہی تھیں اور جل رہی تھیں، چھت پہ لیٹنے والے سو چکے تھے اور باقی ماندہ مہمان، کمروں میں اور کچھ برآمدے اور صحن میں، یا تو ٹولیاں بنا کے گپیں ہانک رہے تھے یا اونگھ رہے تھے اور میں...میں شیروانی پہنے اور کُلّا بغل میں دابے اپنے کمرے کے اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر گلاب کے سرخ پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور دروازے کے اندر کمرے میں، سجے سنورے بیڈ پہ سرخ شادی کے جوڑے میں سجی سنوری 'باجی' تانیہ بیٹھی تھی

ہمارے گھر کے ساتھ دیوار سے دیوار جڑی تھی تایا رفیق کی، اور جو دیوار جڑی تھی اس میں دونوں گھروں میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی. میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا پھر واصف اور فائزہ تھے اور تایا رفیق کی دو ہی بیٹیاں تھیں بڑی تانیہ اور چھوٹی تنزیلہ.. باجی تانیہ مجھ سے تین سال بڑی تھی اور امی بتاتی تھیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو باجی تانیہ ہر وقت مجھے گود میں لے کے بیٹھی رہتی اور میری چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے کھیلتی رہتی اور اتنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں پہ حیران ہوتی رہتی

بچپن سے ہی ہم سب کزنز آپس میں ہی کھیلا کودا کرتے تھے، ہماری دوستیاں باھر نہیں تھیں، ہم سب ایک دوسرے کے ساتھی تھے. باجی تانیہ چونکہ بڑی تھیں سو مجھ سمیت سب چھوٹے انھیں باجی ہی کہتے اور سمجھتے تھے اور ان کے لیے ہم سب چھوٹے بہن بھائی تھے

میں تب ایف جی کالج کھاریاں کے تیسرے سال میں تھا اور پچھلے تین سال سے میں بوائز ہاسٹل میں ہی رہ رہا تھا، جب چھٹیوں پہ گھر آئے دوسرا دن تھا کہ اماں، ابا، تایا رفیق اور تائی ثریا، برآمدے میں بیٹھے تھے اور مجھے بلا بھیجا تھا. میں پہنچا اور سب کو سلام کیا اور بیٹھ رہا. سب خاموش نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے اور میں سوالیہ نظروں سے ان سب کو. تائی ثریا اٹھیں، میرا ماتھا چوما اور "یہ میرا بیٹا ہے اب" کہہ کے مسکراتی بیٹھ گئیں.. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس میں نیا کیا ہے، تایا اور تائی مجھے ہمیشہ بیٹا ہی کہتے تھے. میں نے سوالیہ نظروں سے اماں کو دیکھا تو اماں نے مسکراتے ہوئے واضح کیا کہ تمہاری اور تانیہ کی بات پکی کر دی ہے

میں جہاں تھا وہاں سے چارپائی کے نیچے سے زمین سرکنے لگی تھی، تایا کی میرے سر پہ پیار سے لگائی گئی چپت اور ان کی باقی باتیں کانوں کے گرد گھومتے مچھر کی بھن بھن جیسی سنائی دے رہی تھیں اور میرے اندر کہیں 'تمہاری اور' باجی 'تانیہ کی بات پکی کر دی ہے' کی گردان گونج رہی تھی

شام کو اماں ابا کے سامنے کھڑا میں اپنا مقدمہ لڑ رہا تھا کہ وہ باجی ہے میری اور مجھے ہمیشہ وہ چھوٹا بھائی سمجھتی ہے، آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں.. مگر ابا اس بات پہ بضد تھے کہ شادی سے پہلے سب لڑکے لڑکیاں بہن بھائی ہوتے ہیں، شادی کے بعد سب بدل جاتا ہے اور مجھے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا
میں اس بات پہ اڑا تھا کہ باجی سے شادی کیسے ہو سکتی ہے، میرا ذہن نہیں مان رہا، یہ غلط ہے مگر ابا غصے میں آ گئے اور اپنی دلیل کی اخیر اس نکتے پہ کر دی کہ جب ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے تو تُو کون اور میں کون
اور یہ دلیل نما شے ایسی تھی کہ جس نے میرا سارا مقدمہ یک مشت خارج کر دیا تھا

اور اب میں اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر سرخ گلاب کی لڑیاں لٹک رہی تھیں. میں نے دروازہ کھولا اور کمرے میں بیڈ پہ سر جھکائے سرخ جوڑے میں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی. دروازہ بند کر کے میں بیڈ کی طرف چلا تو ایسا لگا کہ جیسے میرے پاؤں کسی کیچڑ یا دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، من من بھر کے قدم اٹھاتے میں بیڈ کے داہنی طرف بیٹھ گیا. میں نے کُلا ایک طرف رکھا اور سر جھکائے بیٹھ گیا. باجی تانیہ کا بایاں ہاتھ دو انگوٹھیوں اور مہندی کے پھول بوٹوں سے سجا باہنی ٹانگ پہ سامنے دھرا تھا. کافی دیر کی خاموشی رہی، سارے میں پرفیوم اور پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، سب ساکت تھا کہ پھر میں نے ہاتھ بڑھایا اور باجی تانیہ کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنے لگا

Wednesday, June 17, 2020

چوتھی ‏دیوار ‏

گھر کیا ہے، چار دیواریں، تین بند دیواریں اور ایک دیوار میں اسی گھر میں گھسنے اور نکلنے کا دروازہ
گھر کی ایک دیوار مہر محمد دین کے گھر سے ملتی تھی جس کی مہری صرف نام کے ساتھ محدود تھی، دونوں بیٹے امریکہ جا بسے تھے، بڑھاپے نے کمر کمان کر دی تھی. اب یا تو مسجد میں چھوٹے بچوں کے شور پہ گالیاں نکال لیتا یا نواسے نواسیوں کے لاڈ اٹھا لیتا
گھر کی دوسری دیوار پھوپھی کی دیوار سے مل کے کھڑی تھی، جس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا دروازہ نکال لیا گیا تھا جو فائر بندی کے دنوں میں کھلا رہتا، تُو تُو میں میں ہو جاتی تو ایک چارپائی سیدھی کھڑی کر کے راہ بند کر دی جاتی. پھوپھا ریٹائرڈ صوبیدار تھے، سروس کے دوران دو چار سال کوریا رہ آئے تھے اور یہی دو چار سال سبھی رشتہ داروں کو بھاری پڑتے رہتے تھے. پھوپھی سے ہماری بنتی تھی کہ نہیں، یہ کبھی اہم نہیں رہا، اہم یہ تھا کہ پھوپھا سے ہماری کبھی نہیں بنی. جانے فوج میں ان کی نوکری کیا تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا کام ہر ایک کے، ہر چھوٹے بڑے کے معاملات کو سونگھتے رہنا تھا

گھر کی تیسری دیوار میں آنے جانے کا بھاری بھر کم دروازہ تھا، جو کسی چور کے لیے توڑنا تو نہ ناممکن تھا مگر پھلانگنا قدرے آسان تھا

چوتھی دیوار کے ساتھ ابا کے تایا زاد بھائی کی زمین کا ایک ٹکڑا تھا جسے کمر تک لمبی دیوار سے احاطہ کیا ہوا تھا. پھوپھا کی دو بھینسیں اسی احاطے میں رہائش پذیر تھیں

گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں سے تو سبھی محبت کرتے ہیں، ہمیں گھر کی چوتھی دیوار (احاطے) کے باھر بھی ایک دن محبت مل گئی

ہوا یوں کہ جانے کہاں سے آئی ایک کُتیا نے اپنے سات عدد بچوں کو چوتھی دیوار کے ساتھ جنم دیا. کتے کے وہ ساتوں پلے اتنے پیارے تھے کہ نقلی ہونے کا گماں ہوتا تھا. پہلے پہل ہم ڈرتے دور سے دیکھتے رہے، پھر دو دن بعد ہمت جمع کی اور وہاں جا پہنچے جہاں ماں اپنے ساتوں بچوں کو بیک وقت دودھ پلا رہی تھی. دودھ پینے کے بعد پلے ادھر ادھر لڑھکنے لگے. ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک پلے کو چھوا، اتنا نرم جیسے کوئی روئی کا گولہ ہو. وہ پلا ہمارے ہاتھ کے ساتھ کھیلنے لگا. ہمیں ساتوں کے سات ایک جیسے ہی لگتے تھے. جانے وہ کتیا کیسے تمیز رکھ پاتی ہو گی

چار دن کیا گزرے، پھوپھا کو اس بات کی بھنک پڑ گئی اور وہ غصے میں کتیا کو نکالنے پہ تل گئے. ہم چھوٹے تھے، سب بہن بھائیوں کی منت سماجت نے دو چار دن تک اس معاملے کو لٹکائے رکھا مگر پھوپھا کی سوئی اٹک جاتی تھی، سو وہ اٹک چکی تھی

پہلے دن میں کتیا کو بھگایا، وہ شام کو بیچاری پھر آ گئی ، صبح ڈنڈے مار کے نکالتے، شام کو لوٹ آتی. مار کے بھگانا کام نہ آیا تو پھوپھا کے فوجی دماغ نے سکیم لگائی، جب صبح کتیا نکالا بھگایا تو دوپہر کو ساتوں پلوں کو بوری میں ڈالا اور گاؤں سے دور کہیں باھر کھیتوں میں چھوڑ آئے. ہم دھندلی آنکھوں سے پھوپھا کے بائیں کندھے پہ لٹکی بوری کو دیکھتے رہے. شام کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا، ابا کی گالیاں سن کے لقمے حلق سے اتارنے پڑے. ساری رات بوریاں خوابوں میں گھومتی رہیں

صبح اٹھے اور عادتاً چوتھی دیوار کے باھر پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ کتیا وہیں لیٹی تھی اور ایک پلا ادھر ادھر گھوم رہا تھا. باقی چھے کہیں نہیں تھے، ایک واپس لوٹ آیا تھا. ہماری خوشی کو پھوپھا کی آواز نے آگ لگا دی "یہ حرام زادی پھر آ گئی" پھر وہی سکیم کہ کتیا کو بھگا دیا اور پلے کو پھر وہیں چھوڑ آئے

اگلی صبح پھر کتیا اسی ایک پلے کے ساتھ چوتھی دیوار کے سائے میں موجود تھی. پھوپھا کے ناک منہ سے دھواں نکلنے لگا. سکیم کی مسلسل ناکامی سے پھوپھا کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں. پھر کتیا کو مارا بھگایا اور پلے کو گاؤں سے باھر چھوڑ آئے.. اگلی صبح پلا اکیلا ہی واپس لوٹ آیا. کتیا احاطے میں کہیں نہیں تھی. بعد میں محلے میں ادھر ادھر گھومتی نظر آتی رہی. اکیلے پلے کو پھر اسی سکیم کے تحت گاؤں سے باھر پھینک آئے اور اگلی صبح پلا واپس چوتھی دیوار کے سائے میں سو رہا تھا. صوبیدار صاحب پھر سے اپنی ڈیوٹی دہرانا چاہتے تھے مگر اس پلے کی محبت اور ہمارے شور شرابے کے بعد اسے بخش دیا گیا اور وہ چوتھی دیوار اس پلے کا گھر ہو گئی 

Thursday, May 07, 2020

بَنیـے کی حویلی ‏

سردیوں کی دھوپ تھی، چھت کی منڈیر پہ مالٹے چھیلتے اور کھاتے سامنے 'بَنیـے کی حویلی' کی چھت پہ نظر پڑی، وہ انگڑائی لینے کے بعد بازو نیچے گرا رہی تھی اور سِلک کی قمیض میں اٹھتے مدوجزر، میری سانسوں کی کشتی الٹنے کو کافی تھے

ہمارے چھت سے دو چھت چھوڑ کے وہ گھر تھا. گھر قبل از تقسیم کا تھا، لوگ کہتے تھے کہ کسی امیر ہندو بَنیـے کا گھر تھا، سرخ اینٹوں اور بھاری بھر کم لکڑی کے دروازے اور کھڑکیوں سے بنا یہ گھر 'بَنیـے کی حویلی' کہلاتا تھا گو کہ حویلی والی کوئی بات نہیں تھی اس میں. لوگ کہتے تھے کہ اس گھر کے ہندو مالک کے پاس اتنا سونا تھا کہ اس نے صحن بھی ایسا بنوایا تھا کہ جس کے چاروں طرف گھر کے کمرے اور دیواریں تھیں اور صحن میں دھوپ تک کا گزر نہیں تھا، چور کیسے گھستا

اب یہ گھر دو بھائیوں امتیاز اور اعجاز کے پاس تھا. امتیاز دوبئی نوکری کرتا تھا اور اعجاز فیصل آباد کی کسی کپڑے کی مل میں ملازم تھا. وہ امتیاز کی بیوی تھی. نام اس کا نائلہ تھا اور کسی دور دراز کے شہر سے آئی تھی. اس کی ایک بیٹی تھی جو کچھ ماہ کی تھی

سردیوں میں جتنے درختوں پہ پتے رہ جاتے ہیں اتنے کوئی میری مونچھ کے بال نکلے تھے. اور اتنے سے بال مجھ سے سنبھالے نہ جا رہے تھے. اس کی عادت تھی کہ ظہر سے عصر تک وہ چھت پہ ہی رہتی، کبھی لیٹے رہتی، کبھی سبزی کاٹتی، کبھی کوئی ڈائجسٹ پڑھتی اور میں اسے دیکھتا رہتا

خوبصورتی کی کوئی واضح تعریف ہے نہیں، ہوتی بھی تو اس کی تعریف کے لیے میرے ہونٹ بس پھڑک سکتے تھے، کچھ بول نہیں سکتے تھے.

میرے خیال کے گھوڑے سر پٹ ہی بھاگتے تھے، جن کی منزل بَنیـے کی حویلی ہوتی تھی اور اس حویلی میں چھپا سونا پانے کی چاہ میں، میں محمود غزنوی بنتا اور ایک ہی دن میں سترہ حملے کرتا. سونا بانہوں میں سمیٹے فاتح کی طرح نکلتا اور سر پٹ دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پہ اس کی سلک کی قمیض کے قلعے میری دسترس میں ہوتے تھے

ایک سہ پہر کو جب میں عصر کی نماز پڑھنے جاتے ہوئے اس کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ بھاری دروازہ ایک چیخ کی سی آواز سے کھلا، سامنے نائلہ کھڑی تھی

ثاقب، میرا ایک کام کر دو گے

اس نے کچھ ایسے کہا تھا کہ انکار کا سوچنا بھی کفر لگا

جی، کیا کرنا ہے

میں دروازے کے اور قریب ہو گیا

تم کتنے اچھے ہو،مجھے پا الیاس کی دوکان سے مٹی کا تیل لا دو.. بجلی آتی جاتی رہتی ہے، رات کو بجلی چلی گئی تو لالٹین خالی پڑی ہے، اور آج گھر میں کوئی بھی نہیں ہے

تیل، بجلی، لالٹین سب دھندلا گئے تھے اور کانوں میں ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ گھر میں آج کوئی بھی نہیں ہے

میں نے پیسے اور بوتل پکڑی اور پا الیاس کی دوکان سے تیل لے کے پھر اس کے گھر کے سامنے کھڑا تھا. دروازہ کھول کے میں اندر داخل ہوا تو وہ سامنے بچی کو دودھ پلا رہی تھی، مجھے دیکھ کے اس نے اپنی چھاتی اور بچی پہ دوپٹہ کر دیا. میں نے تیل کی بوتل چولہے کے پاس رکھی اور جیب سے پیسے نکالنے لگا. بچی سو گئی تھی، اس نے دودھ چھڑا کے اسے چارپائی پہ لٹا دیا. میں نے پیسے اسے پکڑائے اور گھر کو دیکھنے لگا. واقعی صحن چھوٹا سا تھا اور اس میں دھوپ نے کبھی جھانکا بھی نہ ہو گا. دیواریں قلعے کی دیواروں جیسی تھیں. چھت بہت اونچی تھی. میں اپنی ہی سوچ میں گم ایک جگہ پہ کھڑا گول گھوم کے گھر دیکھ رہا تھا

ٹھہرو، میں تمہیں پِنیاں لا کے دیتی ہوں، اماں نے بھجوائی تھیں میرے لیے

وہ کمرے کی طرف جا رہی تھی اور میں چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا . وہ جانے کیا سوچ کے ایک دم پلٹی اور میرا سر جیسے پشم کے دو گولوں پہ جا ٹکا. میں کچھ کہنا چاہتا تھا اسے مگر منہ سے الفاظ تو نہ نکلے، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے. جانے کیوں میں رونے لگ پڑا تھا. اس نے گھبرا کے میرا سر چھاتی سے اٹھایا

ارے، تمہیں کیا ہوا، ارے ڈر گئے ہو کیا.. 

میں نے سر واپس پشم کے گولوں میں پھنسایا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا 

Sunday, April 26, 2020

رائیگانی ‏

لفظ گرتے ہیں زباں کی شاخ سے

کچھ آتے ہیں ہوا کے ہاتھ
کچھ تیرے پاؤں کے نیچے

‎#مقصود_عاصی

Thursday, April 16, 2020

پہلا ‏ظالم ‏

جب اس دھرتی پہ
پہلا ظلم ہوا تھا

جب پہلے معصوم کی گردن
پہ تلوار چلی تھی
مرتی آنکھوں سے اس نے
آسمان کی اَور تھا دیکھا

تب ان آنکھوں میں
پہلی بار
خدا قتل ہوا تھا

Wednesday, April 08, 2020

لڑائی

محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی

جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا

پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے
جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک پہنچ گئی. کوئی پانچ سات بار طلاق طلاق کہنے کے بعد اور محلے والوں کے بیچ بچاؤ کے بعد جاوید چھت پہ سگریٹ پھونکتا ٹہلنے لگا اور شائستہ آنسو پونچھتی، پسلیاں سہلاتی چولہے میں پھر سے آگ جلانے لگ گئی جو لڑائی کے دوران بجھ گئی تھی

پھر دوسری تیسری لڑائی اور لڑائیوں کا ایک سلسلہ ، پھر وہی روٹین کی مار گالیاں، وہی ہر بار کی طرح طلاقوں پہ طلاقیں اور ہر سال نیا بچہ پیدا کرتے جانا

محلے والوں کو اس بات سے اتنا مسئلہ نہیں تھا کہ جاوید باؤلا ہو جاتا ہے، جب دل کرتا ہے اور جس شے سے دل کرتا ہے، شائستہ کو پیٹ کے رکھ دیتا ہے، محلے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنی طلاقوں کے بعد وہ چار سال سے اکٹھے ہیں اور چار بچے جن چکے ہیں
یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی اور اب کے لڑائی پہ محلے والوں نے گاؤں کے نمبردار کے ہاں ایک میٹنگ رکھی اور پھر وہاں جاوید اور اس کے گھر والوں کے ہمراہ شائستہ اور اس کے والدین کو بھی بلا بھیجا

سب لڑائیوں کی وجوہات اتنی چھوٹی تھیں کہ سننے والا بھی خود کو چھوٹا محسوس کرتا مگر وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے، جنہیں نہ لڑائی سے کوئی مسئلہ تھا نہ لڑائی کی وجوہات بارے کوئی فکر تھی، انھیں فکر تھی کہ اتنی طلاقوں کے بعد اکٹھے رہنا، گاؤں کو گناہوں کے بوجھ تلے دبا دے گا. گاؤں میں کسی کی بھینس چوری ہو یا دوسرے کی فصل میں کسی کی بکری کے چرنے کی وجہ پہ ہوئی لڑائی، سب شائستہ اور جاوید کے اکٹھے رہنے اور بچے جننے کے کارن تھے

گاؤں کے مولوی صاحب بھی وہاں موجود تھے. اونچی لمبی سرو قد شائستہ سر جھکائے اور کبھی کے خوبصورت چہرے کو دوپٹے میں چھپائے کرسی پہ بیٹھی تھی، جاوید کی انگلیوں میں ہمیشہ کی طرح سگریٹ دبی تھی اور دھواں اوپر چھت کو چھونے کی ناکام کوشش میں لگا تھا

اور پھر فیصلہ سنا دیا گیا. چونکہ ایک نہیں، سینکڑوں طلاقیں ہو چکی ہیں، اس لیے شائستہ اور جاوید آج کے بعد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور شائستہ اپنے والدین کے گھر عدت کی مدت پوری کرے گی

ایک خاموشی سی تھی. سگریٹ کا دھواں مر چکا تھا اور شائستہ کرسی پہ اور کُبّی ہو گئی تھی. جب بات بچوں پہ پہنچی اور مولانا نے چاروں بچوں کو "حرام اولاد" قرار دیا تو بے ساختہ شائستہ کا ہاتھ اپنے ابھرے ہوئے پیٹ پہ جا ٹکا 

قیدِ قرنطینہ

صاحبو وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے
آپ کے دوستوں میں ایک دوست ایسا بھی ہوتا ہے جو، سب باتیں جو آپ سب ایک دوسرے کے بارے مذاق میں کرتے ہیں، انہیں صرف سنتا ہے مسکراتا ہے مگر اس میں اپنا حصہ مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالتا. لیکن جب کبھی موڈ میں آتا ہے تو وہی دوست سبھی پرانی جگتیں ایسی بھگو بھگو کے اور ایسے سب کے سامنے آپ کے منہ پہ مارتا ہے کہ دھواں ہر معلوم و نامعلوم سوراخ سے نکلنے لگتا ہے
یہ وقت بھی ویسا ہی کمینہ دوست ہوتا ہے

ہمیں کوئی لکھاری ہونے کا زعم ہے نہ دعویٰ، اور "دوستوں" کا دانشور (چاہے چائینہ کا سہی) کہنا ہم خالصتاً طنز شمار کرتے ہیں

مگر یہ زعم ہمیں بہرحال تھا کہ ہم لوگوں میں گھلنے ملنے کے نہیں ہیں، ہم اپنے گھر میں بھلے ہیں. اس کے علاوہ گھر میں رہنے، نیٹ فلکس پہ چھلانگیں مارنے، کسی پرانی کتاب کو پھر سے پڑھنے کی کوشش کرنے اور ٹویٹر پہ بار بار، جب بھی ہاتھ کو موبائل سجھائی دے، راؤنڈ لگاتے رہنے کو افضل سمجھتے ہیں
مگر پھر یہ موا کورونا وائرس آ دھمکا
پہلے پہل تو یہ کرنٹین کی اردو "قرنطینہ" کسی وسطی یورپ کی حسینہ معلوم پڑتی تھی. (ظالموں نے قید کو قرنطینہ جیسا سیکسی نام دے رکھا ہے)
مگر جب سر پہ پڑی تو گھر سے باھر جانے کا دروازہ سیدھا جنت میں کھلتا دکھائی دینے لگا ہے

نیٹ فلکس کیا خاک دیکھتے، پچھلے ماہ کے پیسے نہ دئیے تو اب نیٹ فلکس بھی کوئی Ex کی طرح ہو گیا ہے. کتابیں ہم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نیند آنے لگتی ہے. رہ گیا ٹویٹر تو اول تو اس سے آج کل گھر کی فضا مکدر ہو جاتی ہے اور دوئم ٹویٹر شدید قسم کا سیاسی میدانِ جنگ بنا رہتا ہے

پھر ایک حل نکالنے کو کچن میں کھانا بنانے کی ابتدا کی. پہلے دن ہی بٹر چکن کو ہاتھ ڈالا کہ آسان ریسیپی ہے، بن بھی جائے گا اور بیگم کے سامنے ہم ذرا چھاتی پھلا کے 'شیف' کہلوائیں گے مگر یہاں بھی ہماری قسمت ہم سے بھی کالی نکلی. پتا نہیں اب چکن فلے میں نمک تھا کہ نیشنل کے مصالحے میں، پہلا لقمہ ہی گلے کو ادھیڑ گیا. اب بیگم کی نمی نمی طنزیہ ہنسی اور ہم چھاتی پہ مکے مار مار کے کھانسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے
لیکن ہار ماننا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت میں ہے. سو ہم پھر سے صوفے سے ٹائلٹ، ٹائلٹ سے صوفے، پھر صوفے سے ٹائلٹ اور ٹائلٹ سے بیڈ کے سفر میں جت گئے ہیں

صاحبو، وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے.. ہمارا یہ زعم کہ ہم گھر میں رہنے کے ہیں ایسا ٹوٹا ہے کھڑکی سے باھر جھانکتے ہیں تو اس قیدِ قرنطینہ سے جیل توڑ کے باھر نکلنے کے ایسے ایسے پلان بنتے ہیں کہ سوچ رہے ہیں کوئی ایک سکرپٹ لکھ کے Sylvester Stallone کو بھیجیں کہ بھیا بنا لو Escape Plan 3

Sunday, March 15, 2020

خالقِ حقیقی

سارے گاؤں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا. پھٹی آنکھوں اور بند ہونٹوں سے سب ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے. منہ ڈھانپے کچھ خواتین بھی ساتھ تھیں

ساٹھ ستر گھروں کا یہ گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ سفید سنگ مر مر کے آسمان کو گردن اٹھا کے تکتے دو میناروں والی مسجد تھی. مسجد کے امام سید انوار الحق شاہ یزدانی تھے جن کے آباؤ اجداد کی قبور پہ ہر سال عرس کی تقریب ہوا کرتی تھی. گاؤں کے لگ بھگ سبھی لوگ انھیں کے مرید تھے. گاؤں والوں کی ہر مشکل اور بیماری کا تعویز اور دعا انھیں سے ملتا تھا. مسجد کے پچھواڑے میں یزدانی شاہ کا حجرہ تھا جو مدرسے کے طور پہ بھی کام آتا تھا

سہ پہر کو نظام موچی کی تیرہ سالہ بیٹی شازیہ کی لاش جا بجا پھٹے اور ادھڑے ہوئے کپڑوں میں گھر پہنچی تھی جو تین چار گھنٹے پہلے یزدانی شاہ کے پاس قرآن پڑھنے گئی تھی. ماں اور بہنوں کی چیخوں سے محلہ لرز اٹھا تھا. سارا محلہ نظام موچی کے چھوٹے سے صحن میں تھا جب یہ بات وہاں پہنچی کہ شازیہ کو امام یزدانی شاہ نے قتل کیا ہے. اس قیامت کی خبر پہ سارے میں خاموشی یوں پھیل گئی جیسے پچھلی سردیوں میں دھند پھیلی تھی، اطلاع دینے والے نے یہ بھی کہا کہ سارے گاؤں کے مردوں اور نظام موچی کے سبھی گھر والوں کو شاہ جی نے مسجد بلایا ہے

سب چپ چاپ مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے جیسے زندہ اور گونگی لاشیں قبروں سے نکل کے چل پڑی ہوں

مسجد کے صحن میں سر پہ کالی پگڑی اور کالی چادر لپیٹے سید انوار الحق شاہ یزدانی بیٹھے اور سارا گاؤں ان کے گرد بیٹھا ہوا تھا. نظام موچی اپنی بیوی اور بچیوں کے ساتھ شازیہ کی لاش سامنے دھرے سر جھکائے رو رہا تھا

کسی ایک انسان کا قتل، پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ ہمارا دین کہتا ہے اور اس پہ ہمارا ایمان ہے

یزدانی شاہ کی کڑکتی آواز گونجی

نظام دین میرا بھائی ہے، میرا مرید ہے، اس کا سارا گھر میرا مرید ہے، پیر مرید کے ہر دکھ درد خوشی غمی کو جانتا ہے تبھی وہ پیر ہے. کیوں ماسٹر رحمت صاحب، آپ گاؤں کے سب سے پڑھے لکھے شخص ہیں، کیا میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں؟

ماسٹر رحمت نے ہلتی گردن اور ہلا کے ہاں میں ہاں ملائی. سب خاموشی سے سر جھکائے سن رہے تھے

آپ سب کو حضرت حضر کا واقعہ یاد ہو گا، حضرت موسیٰ نے ایک خوبصورت معصوم بچے کی گردن دبا کے مارنے پہ بے صبری دکھائی تو حضر نے کہا کہ یہ بچہ پیدائشی کافر تھا مگر اس کے والدین مومنین تھے، مجھے خدشہ ہوا کہ یہ بڑا ہو کے انھیں بھی گمراہ و سرکش نہ کر دے اس لیے اسے قتل کر دیا.......نہیں نہیں نعوذ باللہ نہیں میں حضر کے پاؤں کی خاک بھی نہیں، میری نہ اوقات نہ مجال کہ اس عظیم ہستی کے سامنے کھڑا بھی ہو سکوں

صحن میں مکھیوں کی بھن بھن جیسی سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازیں آ رہی تھیں

نظام دین اور اس کے گھر والے پکے، سچے مومنین ہیں، اس کی گواہی سر پہ قرآن مجید رکھ کے دیتا ہوں میں، خدا کے پیارے اور بہت قریب ہیں یہ سب گھر والے، مگر نوح کے گھر بھی تو گمراہ پیدا ہوا تھا. نظام دین کے خوبصورت ایمان بھرے گھر میں یہ بیٹی گناہوں کے اندھیرے لے کے آئی تھی. اتنی چھوٹی سی عمر میں... توبہ استغفراللہ ربی... توبہ
میں آج اسے نہ مارتا تو کچھ سالوں بعد اس کے مومنین ماں باپ اس کو خود قتل کر دیتے یا وہ ایمان اور غیرت والے والدین خود کو ہی قتل کر دیتے. یہ لڑکی بڑے ہو کے صرف داغ بنتی، جن کے ماتھوں پہ سجدوں کے داغ ہیں ان پہ اپنی گندگی کی کالک مل دیتی

سوئی گرتی تو سب چونک اٹھتے، ایسی قبرستانی چپ تھی مسجد کے صحن میں

میں نے آگے جو دیکھا اسی پہ آج یہ قدم اٹھایا. میں نے وہی کیا جو میرے خدا کے برگزیدہ اور پسندیدہ اور چنیندہ لوگوں کی سنت ہے... میں نے سب کہہ دیا اب آپ پولیس کے پاس جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ

نظام دین اٹھا اور سید انوار الحق شاہ یزدانی کے گھٹنوں کو چھو کے سر جھکا کے رونے لگا، یزدانی شاہ نے اسے اٹھایا اور اٹھ کے گلے لگا لیا. سب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھنے لگے

مسجد کے صاف چمکتے صحن میں شازیہ کی لاش داغ کی طرح پڑی تھی


اور کہیں دُور کوئی بوڑھا خدا اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے اپنے سفید بال نوچتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جس انسان کو تخلیق کرنے کا دعویٰ میرا تھا، وہی انسان میرا خالق نکلا 

Sunday, March 01, 2020

اُبال

محبت؟ اس خبیث کو محبت ہو گئی ہے.. او گدھے کے کھُر محبت کچھ نہیں ہوتی، جسم کے گرم چولہے پہ رکھی جوانی کو آیا اُبال ہے بس
ابا نے محبت کا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا

اس کا دوسرا محبت نامہ پکڑا گیا تھا. اڑنے سے بیشتر ہی اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا شاید. اسے اپنا پہلا محبت نامہ زبانی یاد تھا. کیسے ساری رات جاگ کے اس نے محبت کے اظہار کو لفظوں کے موتی پروئے تھے جو تنزیلہ کے گلے کا ہار ہوئے. ساری رات کا جاگا صبح کالج پہنچا تو ایک دم تر و تازہ تھا. رات بھر کی تھکاوٹ، ویگن میں پہلا خط تنزیلہ کی گود میں رکھے بیگ میں رکھنے اور تنزیلہ کے گلابی پڑتے گالوں نے، دور کر دی تھی. سارا دن وہ کبھی کالج کے گراؤنڈ کبھی کینٹین میں اگلی صبح کے جوابی خواب دیکھتا رہا تھا

اگلی صبح ویگن میں بیٹھے ہوئے اس نے پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تنزیلہ کو مڑ کے دیکھا تو گلابی گالوں پہ آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے اپنی ہتھیلی عرفان کو دکھائی جس پہ مارکر سے سرخ رنگ کا دل بنا ہوا تھا. عرفان کا دل تھا کہ یوں پھڑکا جیسے چھاتی کے اندر بھونچال آ گیا ہو. وہ سارا دن نئے خوابوں نے آنکھوں میں جگہ بنا لی تھی. ساری دنیا گھر سے ویگن اور پھر ویگن سے گھر تک کے درمیان تک تھی جہاں کوئی سرحد نہ تھی نہ شناخت، بس وہ تھا اور تنزیلہ تھی. جہاں رات تنزیلہ کے گھنے بالوں میں تھی، جہاں دن کی روشنی اس کے روشن ماتھے پہ اور شام کا سونا گلابی گالوں پہ..وہ خوابوں کی راہوں پہ ناچتا پھر رہا تھا اور یہ حقیقت یکسر مسترد کر چکا تھا کہ ہمارے درمیان کوئی آئے گا

درمیان آیا تو بھی تنزیلہ کا باپ، جو گاؤں کے پرائمری سکول میں ہیڈ ماسٹر بھی تھا اور کبھی کبھار مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا. ماسٹر یعقوب کی پہچان ہمیشہ سفید شلوار قمیض، سردیوں میں کالی واسکٹ، چہرے پہ سفید داڑھی اور سر پہ سفید ٹوپی. ماسٹر صاحب کی دو ہی بیٹیاں تھیں تنزیلہ بڑی تھی. اس دن ماسٹر یعقوب، ایک ہاتھ میں خط اور دوسرے میں اپنی ہر وقت سر پہ رکھی سفید ٹوپی پکڑے، سر جھکائے چوہدری حنیف نمبردار کے سامنے بیٹھے تھے.

چوہدری صاحب، یہ خط آپ کے بیٹے عرفان نے میری بیٹی کو لکھا ہے
الفاظ اٹک اٹک کے نکل رہے تھے
آپ بڑے لوگ ہیں چوہدری صاحب، میں غریب ہیڈ ماسٹر ہوں جس کی کل کمائی دو بیٹیاں ہیں اور ایک عزت ہے جو اتنے سالوں کی جمع پونجی ہے. عرفان مرد ہے، میری عزت رُل جانی ہے
ماسٹر یعقوب کی آواز بھرائی ہوئی تھی

دیکھیں ماسٹر جی، یہ جوانی میں ہر مرد پہ چڑھتا خمار ہے،مگر اتر جاتا ہے،سب ٹھیک ہوجائے گا، میں نے بڑے بڑے مسئلے حل کر دئیے ہیں یہ کیا شے ہے.. میں اسے سمجھاؤں گا، وہ سمجھ جائے گا، آپ بھی اپنی بیٹی کو سمجھائیں، ٹینشن نہ لیں ماسٹر جی

انگلیوں میں پھنسے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے چوہدری حنیف کے چہرے پہ کوئی تاثر تک نہ تھا

جی چوہدری صاحب، میں نے بہت سمجھایا ہے اسے، میں اس کا کالج ہی چھڑوا دوں گا

اوہو ماسٹر جی، کچھ نہیں ہوتا ،یہ لیں آپ چائے پئیں.... او شیدیا، ماسٹر جی کے لیے بسکٹ بھی لا

شام کو ابا نے محبت کا پوسٹ مارٹم کر دیا کہ جوانی کا نشہ ہے، کچھ دنوں میں اتر جائے گا، بندہ بن

اگلے دن ویگن میں تنزیلہ نہیں تھی، اسے دھوپ بھرا دن اندھیرا لگ رہا تھا، دوسرے دن بھی ویگن کی خالی سیٹ دیکھ کے اس کا دل تنزیلہ کو ملنے دیکھنے کو مچل رہا تھا. اس نے تنزیلہ کی سہیلی کی زبانی پیغام بھیجا کہ گاؤں کی پچھلی طرف، کچے راستے پہ گنے کے کھیتوں میں کل دوپہر کو ملنے آنا
ساری رات پھر آنکھوں میں کٹی، کبھی اس کے نہ آنے کا خوف سانپ بن کے ڈراتا تو کبھی اس کے آ جانے پہ خیالی ملاقات کے رنگوں کی پھلجھڑیاں چلتی رہیں

دوپہر تھی اور گاؤں خاموش تھا، کوئی ایک آدھ آوارہ کتا ہی کچے راستے کی راہ بھول کے آ جاتا ورنہ مکمل خاموشی تھی. اور پھر سفید دوپٹے کو چادر کی طرح اوڑھے وہ کچے راستے پہ تیزی سے کھیتوں کی طرف آتی دکھائی دی. اس نے ہاتھ ہلا کے اپنی طرف متوجہ کیا اور کھیتوں میں گھس گیا
تنزیلہ گنے کے قدآور کھیت میں گھسی اور عرفان کی کھلی بانہوں میں سمٹ گئی
اس نے عرفان کے کان میں سرگوشی کی

ابا مجھے شاید ماموں کے ہاں شیخوپورہ بھیج دیں، میں نہیں جانا چاہتی عرفان، میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

عرفان نے اس کا سرخ تپتا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور آنکھوں میں اترے آنسو ہونٹوں سے چومتے ہوئے جیسے تسلی دینے لگا
عرفان کے ہونٹ اور ہاتھ تسلیاں دے رہے تھے اور وہ سمٹتے ہوئے بانہوں کے حصار میں کانپ رہی تھی. سفید دوپٹہ زمین پہ گر چکا تھا اور قمیض کے نیچے سے عرفان کا ہاتھ مسلسل نیچے کی طرف بڑھ رہا تھا. وہ مچلی مگر عرفان سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی طرح بے لگام ہو گیا تھا. اس کے ہاتھوں اور منہ سے نہ نہ کرنے پہ مسلسل اسے "کچھ نہیں ہوتا، میں سب ٹھیک کر دوں گا" کی تسلیاں دیتے ہوئے عرفان کے جسم کے تپتے چولہے پہ رکھی جوانی نے آخری ابال لے لیا  

Sunday, February 02, 2020

کالی صبح

صبح اٹھتے ہی اسے لگا کہ یہ دن کوئی سانحہ لیے ہوئے ہے.. یہ صبح تھی کوئی.. کالی صبح.. سامنے والی خالہ رشیدہ کی کالی بلی جیسی کالی صبح، جو ہزار بار اس کا راستہ کاٹ چکی تھی مگر اس نے کبھی راستہ نہیں بدلا.. اسے بلیاں بالکل پسند نہیں تھیں، اسے لگتا تھا کہ بلیاں انسانوں میں رہ کے انسانی حرکتیں کرنے لگتی ہیں. یہ خیال اس کا بچپن سے تھا جب وہ ماموں عادل کے ہاں جاتے تو ان کی پالتو بلی کو کھانا چارپائی پہ بیٹھ کے کھاتے دیکھتا تو اسے عجیب سا خوف محسوس ہوتا.. اور بچپن کا خیال یقین میں مکمل تب بدلا جب وہ اس کالونی میں کرائے پہ مکان لے چکا تھا. وجہ تھی سامنے والے گھر میں رہتی خالہ رشیدہ کی لڑاکا طبعیت اور گلے کا لاؤڈ سپیکر. خالہ رشیدہ اتنا اونچا بولتی تھیں کہ ان کی سرگوشی دو سو کانوں تک پہنچتی ہو گی. اور ان کی کالی بلی انھی کی ہم آواز تھی. اونچے سُروں میں بلی کی میاؤں میاؤں اسے چیخوں جیسی لگتی تھی ، بات یہاں تک رہتی تو شاید اس کے بچپن کا خیال، یقین کی منزل پہ پڑاؤ نہ ڈالتا مگر خالہ رشیدہ کی طرح ان کی بلی کی لڑاکا طبیعت، اسے بلیاں پسند نہیں تھیں مگر اس بلی سے اسے نفرت تھی اور شدید نفرت کے باوجود وہ وہمی نہیں تھا کہ بلی کے کاٹنے پہ راستے بدلتے پھرتا.. مگر آج کا دن اس کو کھٹک رہا تھا

بستر سے اٹھ کے بنیان شلوار اتار کے غسل خانے میں جاتے ہوئے بھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آج کچھ ہونا ہے کیا؟ کیا ہونا ہے؟ آئینے کے سامنے اس نے شیونگ فوم نکالی اور برش ڈھونڈنے لگا. پھر یاد آیا کہ وہ دو دن پہلے غسل خانے کے فرش پہ گرا تھا تو غصے میں پھینک دیا تھا اور نیا خریدنا یاد نہیں رہا. منہ پہ پانی کا چھپاکا مارا اور ہاتھ پہ فوم لگا کے بڑھی ہوئی شیو پہ مَلنے لگا. ہاتھ سے فوم لگانے پہ عجیب سی آواز بھی آ رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ مکان کا کرایہ تو ابھی دس دن پہلے دیا ہے. بلیڈ چہرے پہ 'نون غنہ' بنا رہا تھا.. بجلی کا بل بھی ادا ہو چکا ہے. سیلنڈر وہ خود بھروا کے لاتا ہے
کیتلی میں چائے کے لیے کھلی پتی ڈالنے سے چائے مگ میں انڈیلنے تک اس کا دھیان صبح کے حادثاتی ہونے کے احساس پہ اٹکا ہوا تھا،کام پہ کچھ کیا تو نہیں میں نے؟ مطلب کچھ غلط؟ مگر نہیں ابھی پرسوں ہی اس نے ڈیڑھ ماہ بعد ایک گاڑی کی ڈیل کی تھی، ڈیل نے اس کے اعصاب کی ایسی کی تیسی پھیر دی تھی کہ وہ صاحب شو روم میں آئے تو ساتھ چار پانچ سال کا بچہ بھی لائے تھے. گاڑی کے بارے میں تمام مطلوبہ و غیر مطلوبہ معلومات رٹائے ہوئے طوطے کی طرح انھیں سنا دیں. صاحب نے گاڑی میں بیٹھ کے سیٹ کے آرام دہ ہونے کی تسلی بھی کی. اور جو باتیں اس نے انھیں گاڑی کے متعلق بتائی تھیں وہ سبھی اپنے بچے کو بھی بتا رہے تھے. بچے کی توجہ والد کی دکھائی جانے والی گاڑی پہ کم اور ہاتھ میں پکڑی کھلونا گاڑی کی طرف زیادہ تھا. ان صاحب نے گاڑی کو اندر باھر سے خوب ٹھونک بجا کے معائنہ کرنے کے بعد گاڑی پسند کر لی. بات گاڑی کے رنگ پہ آ ٹھہری. ان صاحب کے صاحبزادے نے اپنی کھلونا گاڑی سامنے میز پہ رکھی
پاپا مجھے یہ رنگ والی گاری چاہیے
اب اس نے ایک لحظہ گاڑی کو دیکھا، پھر بچے کو اور پھر بچے کے پاپا کو.. کھلونا گاڑی کا رنگ نہ جانے کیا تھا، کچھ عجیب ہی رنگ تھا پتا نہیں کتنے کی رنگوں کا ملغوبہ سا تھا
سر ،یہ رنگ تو ناممکن ہے، آپ اس میں

مجھے یئی چاہیے
بچے نے کھلونا گاڑی میز سے اٹھائی اور فرش پہ پٹخ دی. وہ زور سے زور سے میز کو ٹانگیں مارے جا رہا تھا، ان صاحب نے غصیلی نظروں سے اسے دیکھا اور بچے کو بہلانے باھر لے گئے. وہ سر پکڑ کے بیٹھ رہا
کوئی دس پندرہ منٹس کے بعد وہ صاحب آئے اور سفید رنگ میں ڈیل کر کے چلتے بنے
چائے کا مگ ابھی ہاتھ میں ہی تھا کہ سامنے گھڑی پہ نظر پڑی تو اچھل پڑا.. جلدی جلدی میں جیکٹ پہنی، دروازے کے دائیں طرف دیوار پہ ٹنگی موٹر سائیکل کی چابی لی، دروازے کو تالا لگایا اور دوڑتا ہوا سیڑھیاں اتر گیا. کمپاؤنڈ میں کھڑی موٹر سائیکل پہلی کِک میں ہی سٹارٹ ہونا بھی کوئی معجزہ ہی تھا جو ہو گیا. جاڑے کے دن تھے اور دھند نے سارے کو لپیٹے میں لیا ہوا تھا. چار قدم سامنے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا. موٹر سائیکل کی لائٹ دھند میں جیسے واپس پلٹ کے آنکھوں کو چندھیا رہی تھی. اس نے ہیلمٹ پہنا اور موٹر سائیکل کمپاؤنڈ سے سڑک پہ لے آیا. ابھی سڑک پہ ذرا سا ہی آگے بڑھا یو گا کہ یک دم سپیڈ بریکر کے پاس موٹر سائیکل پوری ڈول گئی، مشکل نے خود کو گرنے سے بچایا اور موٹر سائیکل سڑک کنارے روک کے دیکھا تو سامنے والے ٹائر پہ خون تھا. وہ دوڑ کے واپس پلٹا تو سپیڈ بریکر پہ پاس خالہ رشیدہ کی کالی بلی کچلی ہوئی پڑی تھی 

Wednesday, January 22, 2020

لاڈلا

مولوی احتشام الحق کی اذان اور تقریر سارے میں مشہور تھی. جتنے اونچے مسجد کے مینار تھے اتنی ہی اونچی مولوی احتشام کی آواز تھی. اونچے سُروں میں جب گلے سے "حیی علی الفلاح" نکلتا تو قدم مسجد کی طرف چل نکلتے. ارد گرد کے قریباً سبھی گاؤں عید میلاد النبی، سب برات، شب معراج، بڑی گیارہویں، محرم، عاشورہ وغیرہ کے لیے مولوی احتشام کو ہی تقریر کے لیے بلایا کرتے تھے. ایسی جوشیلی تقریر کہ سننے والے جھوم جھوم اٹھتے. ایسی پُر اثر تقریر کہ ابھی پچھلے دس محرم کے دن ان کی تقریر کے دوران بلک بلک کے روتے لوگوں میں چاچا رحمت اتنا روئے تڑپـے کہ مسجد میں ہی دل کا دورہ پڑا اور چل بسے. ختم سے لے کر تعویز تک، سب مولوی صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے

مولوی صاحب فجر سے عشا تک سبھی اذانیں خود دیا کرتے تھے اور سبھی جماعتیں خود کروایا کرتے، کبھی کوئی ختم ، دعوتِ خطاب، سفر یا مسئلہ درپیش ہو تو الگ بات ہے. عصر سے پہلے کبھی مسجد میں اور کبھی اپنے حجرے میں بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے. حجرہ کیا تھا، مسجد کے پچھواڑے میں تین کمروں کا پکا مکان تھا جہاں مولوی احتشام اکیلے رہا کرتے تھے. ان کے بیوی بچے آبائی گاؤں خیر نگر میں رہتے تھے

بچوں کی خاصی تعداد قرآن پڑھنے آیا کرتی تھی اور سبھی اس بات پہ متفق تھے کہ وقار علی، مولوی صاحب کا بھی لاڈلا ہے. وقار علی چھے بہنوں کا اکلوتا اور سب سے چھوٹا بھائی تھا، سو گھر والوں سے لاڈ ایسا اور اتنا ملتا تھا کہ گاؤں بھر میں وہ "لاڈلے" کے نام سے پکارا جاتا تھا. کچھ لوگ تو اسے دِھیاں ورگا پُتر (بیٹیوں جیسا بیٹا) بھی کہا کرتے تھے. لاڈلے کو اس لاڈ نے بہت نقصان پہنچایا تھا، وہ سب کے سامنے بالکل خاموش اور سر جھکائے رہتا. اسے لاڈلا گالی لگتا تھا. پانچویں سے چھٹی جماعت میں آ گیا تھا مگر اعتماد نام کی شے کہیں بھی نہیں تھی. پڑھائی میں اچھا ہونے کے باوجود ہم جماعت لڑکوں کی باتوں پہ جھکا ہوا سر اور جھکا لیتا اور لال گال لیے چپ سادھ لیتا. ایک بار اس کی طبیعت کچھ خراب تھی تو باجی نائیلہ اس کا بستہ اٹھائے اسے سکول چھوڑنے آئیں تھیں، تب بچوں نے اسے بہت تنگ کیا کہ "باجی، اپنی چھوٹی بہن کو سکول چھوڑنے آئی ہیں" وہ سرخ کان لیے کتاب میں گھس گیا

مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے میں سخت طبیعت رکھتے تھے. بچے مار کے ڈر سے سبق خوب رٹ کے آیا کرتے تھے. والدین کو مار پہ اعتراض نہیں تھا، بچے قرآن مکمل پڑھ لیں بس. اپنے بیٹے کو پہلی بار پڑھنے کے لئے چھوڑنے آئے امتیاز بٹ کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب، اس کی چمڑی آپ کی ہے، بس ہڈیاں میری ہیں انھیں کوئی نقصان نہ ہو.. مگر وقار لاڈلے کو مار اور سختی سے استثنا تھا. لاڈلے کو مولوی صاحب ہمیشہ اپنے پاس بٹھاتے، اس کے گال سہلاتے کبھی کمر پہ اور ران پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سبق پڑھایا کرتے.

اس دن گو کہ سبق سے چھٹی تھی مگر ظہر کی نماز پڑھتے وقار لاڈلے کو مولوی صاحب نے پڑھنے کے لئے اپنے حجرے میں آنے کو کہا. لاڈلا نماز کے بعد گھر چلا گیا اور پھر گھر سے کافی دیر سے آنے کے بعد مولوی صاحب کے پاس بیٹھا لہک لہک کے سورۃ الرحمٰن کی آیات پڑھ رہا تھا.
مولوی احتشام سفید بنیان اور دھوتی میں تکیے سے ٹیک لگائے آدھے بیٹھے آدھے لیٹے ہوئے تھے. دایاں ہاتھ لاڈلے کی کمر سہلا رہا تھا اور بایاں ہاتھ دھوتی کے اندر مسلسل ہل رہا تھا. زیر زبر کی غلطی پہ لاڈلے کے گال پہ چٹکی بھرتے اور ہنسنے لگتے. کمرے کا دروازہ بھی بند تھا اور اندر کچھ حبس سے اور کچھ ہوس سے پسینہ بہہ رہا تھا. پڑھتے پڑھتے مولوی صاحب نے وقار علی کو پکارا

لاڈلے ادھر آؤ یہاں بیٹھو

اور پھر اس کی ہچکچاہٹ پہ اسے پکڑ کے اپنی جھولی میں بٹھا لیا اور اسے پڑھنے کا کہتے ہوئے کھی کھی کرنے لگے. وقار لاڈلا مولوی احتشام کی جھولی میں تھا اور لاڈلے کی جھولی میں سورۃ الرحمٰن، وہ پھر مخصوص انداز میں آگے پیچھے ہلتے ہوئے لہک لہک کے "فبای الا ربکما تکذبان" پڑھ رہا تھا اور مولوی احتشام کی ہنسی اور جھولی میں طوفان آیا پڑا تھا

بہت گرمی ہے بھئی لاڈلے، آف آج تو بہت گرمی ہے

کہتے ہوئے مولوی صاحب نے دونوں اطراف سے دھوتی کے پلو کھینچ لیے اور لاڈلا ننگی ٹانگوں پہ آ رہا. مولوی صاحب نے سورہ اس کے ہاتھ سے لے کے چارپائی پہ رکھی اور بیٹھے بیٹھے اس کی شلوار نیچے کھینچ دی. لاڈلا سرخ پڑ گیا اور مولوی احتشام کی کھی کھی کھی جاری رہی. وقار کی چیخ پہ فوراً اس کے منہ پہ ہاتھ دھرتے ہوئے مولوی احتشام کھی کھی کھی کے ساتھ "کچھ نہیں ہوتا لاڈلے، بس تھوڑا سا اور، کوئی بات نہیں، یہ ہو گیا بس بس" کہتے رہے، لاڈلا پہلے تڑپا اور کسمساتا رہا اور پھر بالکل ڈھیلا پڑ گیا. مولوی احتشام کی گود میں لاڈلا یوں بـے جان سا پڑا تھا جیسے چارپائی کی دوسری طرف قرآن چپ پڑا تھا

باھر دروازہ بجا "مولوی صاحب، عصر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے" مولوی احتشام نے فوراً لاڈلے کو چارپائی پہ لٹایا اور "میں آیا بس" کہہ کے فوراً شلوار قمیض پہنی اور اسی حالت میں جا کے لاؤڈ اسپیکر پہ مسجد کے میناروں سے بھی اونچی آواز میں "حیی علی الفلاح" کی آوازیں لگانے لگے 

Saturday, January 11, 2020

شہنائی

ڈھول کی تھاپ پہ میرے کندھے نہ چاہتے ہوئے بھی تھرکنے لگتے ہیں مگر آج سامنے والی گلی میں ڈھول بج رہا ہے اور اپنی بیٹھک میں، میں کندھے جھکائے بیٹھا ہوں

ڈھول ایک ردھم میں بجتا ہے، پھر زور کی تھاپ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ردھم وہی رہتا ہے مگر ڈھول پہ تھاپ کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور سننے والوں کے پیروں میں جیسے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے. ڈھول بج رہا ہو اور بھنگڑا ڈالنے کا من نہ کرنا، دل پہ کالی مہر لگے ہونے کی نشانی ہے
ڈھولی ڈھول بجا رہا ہے اور شہنائی جانے کس کا ماتم کر رہی ہے . مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شہنائی کا شادی پہ کیا مطلب، شہنائی تو چیخ ہے، دل چیرنے دینے والی چیخ

اس وقت بیٹھک کے ایک کونے میں میں دبکا بیٹھا ہوں اور ایک چیخ میرے اندر دبکی بیٹھی ہے، بیٹھک میں باھر سے آتے شور کا طوفان ہے اور اندر کہیں گھپ اندھیری چُپ کا آسیب

ایک خط سامنے دھرا ہے، خط کیا ہے رقعہ ہے. کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. آدھی تقدیر کا ٹکڑا... کاغذ پہ نیلی سیاہی میں لکھے کچھ جملے ہیں ، اس پہ چار چھے جگہوں پہ سیاہی پھیلی ہوئی ہے، کچھ لفظوں کے اندر سے طوفان شاید باھر امڈ آیا ہو گا

باھر ڈھول خاموش ہو گیا ہے اور ڈیک پہ "دل کی حالت کس کو بتائیں، ہم بھی پاگل تم بھی پاگل" چل رہا ہے

کوئی ڈیڑھ سال پہلے گھر کی چھت پہ گرمیوں کی شام اتری تھی کہ چھوٹی بہن رابعہ سلیقے سے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ مجھے تھما کے بولی
باجی تانیہ نے یہ دیا ہے، کہہ رہی تھی اپنے بھائی شاہد کو تب دینا، جب کوئی پاس نہ ہو
میں نے جلدی سے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے چِلی مِلی کا لالچ دے کے کسی کو بھی بتانے سے منع کر دیا

تانیہ جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی لکھائی بھی خوبصورت تھی. ایسے لکھتی تھی جیسے 'جمال خوشخط پینٹر' سے ابا ہر سال عید میلاد النبی کا اشتہار لکھوایا کرتے تھے. میں تانیہ کو چھپ چھپ کے دیکھا کرتا تھا اور اتنا چھپ کے کہ اسے خبر ہو جاتی تھی. وہ نِمّا سا مسکراتی تو دل چھاتی سے باھر دھڑکنے لگتا

ہم خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے. پھر کبھی موقع ملتا تو روبرو ملاقات بھی نصیب ہو جاتی. دل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی تو تانیہ کی تان پہ گزارنی ہے بس... اسی سُر تان میں وقت گزرتا گیا اور پتا تب چلا جب تانیہ کے گھر 'بیری پہ پہلا پتھر' آیا.. پتھر بہت بڑا تھا، کوئی شہابِ ثاقب تھا.. تانیہ کی پھوپھی اپنے بیٹے کا رشتہ لے کے آئی تھیں اور تانیہ کے ابا اس رشتے کو انکار گویا کفر قرار دے چکے تھے.

وہی خط جو پہلے بہاروں میں کھلے پھولوں کے گلدستے لگتے تھے، سوکھے پتے اڑاتی خزاں کا مقدر ہو گئے. وہ جو مسکراتی تھی تو دل چھاتی کے باھر دھڑکتا تھا، اب آنکھوں میں آنسو لیے سامنے آتی تو دل سانس لینا بھول جاتا
سارے محلے کو پتا تھا کہ تانیہ کا رشتہ ہو گیا ہے، ایسے میں، میں ابا سے اس رشتے کی بات کیسے کرتا،بس خط میں اسے جھوٹی تسلیاں دیتا رہتا یا شاید خود کو.. ان دنوں میں صحراؤں میں رہتے بنی اسرائیل کے لوگوں جیسا ہو گیا کہ بس کچھ معجزہ ہو جائے، خدا اترے کسی چھت پہ، مجھے اور تانیہ کو آشیرباد دے کے کہے کہ جاؤ تم دونوں اب ایک ہو

کبھی سوچتا کہ اسے لے کے بھاگ جاؤں، یہاں سے دور کہ یہاں پہ معجزے بھی مر چکے ہیں. یہاں سے ہم نکلیں تو چار کوئی گھنٹے میں لاہور پہنچ جائیں گے، لاہور بہت بڑا ہے، وہاں کچھ نہ کچھ ہو جائے گا.. اپنی ادھوری پڑھائی اور مکمل بے ہُنری کے باوجود سوچ جھوٹے راہ دکھا رہی تھی. کبھی سوچتا کہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلوں، چاچا عزیز کی رائفل، جو وہ ہر دوسرے ہفتے دیوار سے اتار کے صاف کر کے واپس ٹانگ دیتے تھے، چراؤں اور تانیہ کے پھوپھی کے بیٹے کو سوتے میں ہی گولی مار دوں. تانیہ کی ڈھولی اٹھانے والے کا جنازہ اٹھے. کبھی سوچتا کہ کوئی سیلاب آئے، سارا گاؤں بہا کے لے جائے بس میں اور تانیہ بچ جائیں

انھیں سوچوں میں گم، معجزوں کی لاشوں کو ڈھوتا پھر رہا تھا کہ اس شام مایوں بیٹھی تانیہ کا خط رابعہ نے میری قمیض کی جیب میں ڈال دیا. خط کیا تھا رقعہ تھا، کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. میں جو سوچوں میں خدا اپنی چھت پہ اتار چکا تھا، جو لاہور جا کے تانیہ کے ساتھ زندگی بسر بھی کر چکا تھا، اس رقعے کو پڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا. ساری رات ہاتھ اور جیب کی جنگ جاری رہی اور صبح اس جنگ کے خاتمے کا طبل تب بجا جب ڈھول کی پہلی تھاپ کانوں میں پڑی

کاغذ کا ٹکڑا ہے ، اس پہ چند جملے گھسیٹے ہوئے ہیں جیسے لاش گھسیٹی گئی ہو

"شَیدی! آج کی رات ہے، دعاؤں کے کبوتروں کے پر، آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی جل چکے ہیں، یا تو میں تمہارے ساتھ بھاگ جاؤں یا خود کو ایک ایسی کھونٹی سے باندھ دوں جس پہ میری ماں کب سے بندھی ہے اور محلے کی ہر دوسری عورت باندھی جاتی ہے.. شیدی بس ایک اشارہ کرو میں تم سے بھی دو قدم آگے چلوں گی، میری زندگی" اس سے آگے کچھ نہیں لکھا. جملہ پتا نہیں ادھورا ہے یا پورا

باھر شہنائی پھر چیخی ہے اور بے ترتیبی سے پھٹے رقعے پہ نیلی سیاہی اور پھیل چکی ہے 

Thursday, January 02, 2020

الٹی گنتی

جب یہ حکم مجھ پہ صادر ہوا تب میرے پاس انکار کی گنجائش تو کیا خاک ہوتی، سمجھنے کی عمر بھی نہیں تھی

"نبیل حافظِ قرآن بنے گا"

حفظ کراتے ہوئے الٹا قرآن حفظ کرانا شروع کراتے ہیں، سو حفظ کا پہلا سبق تیسواں پارہ تھا. پہلے دن کا سبق ہی ہوش اڑانے کو کافی تھی. زبان تھی کہ نہ کبھی بولی نہ سنی، سمجھنی تو بہت دُور کی بات ہے. اب ایک سطر ختم ہوتی تو دوسری شروع کرنے تک پچھلی بھول جاتی

مولوی صاحب کے پاس جاتے کوئی چوتھا پانچواں دن تھا اور جو پچھلے دنوں رٹا لگایا تھا وہ سناتے ہوئے بار بار گڑبڑ ہو رہی تھی. دو تھپڑ بھی رٹا ہوا سبق یاد نہیں کرا سکے تھے کہ میں نے روتے ہوئے قمیض سے بہتی ناک صاف کرتے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب، کوئی قرآن اردو میں نہیں ملتا کہیں سے؟ وہ آسانی سے رٹ لوں گا میں" مولوی صاحب کی داڑھی میں جیسے طوفان آ گیا، میرے سر کے بال پکڑے اور اپنے گوڈے کے نیچے میرا سر دے کے میری کمر پہ تھپڑوں کی موسلا دھار بارش کر دی "معاف کر دیں مولوی صاحب، معاف کر دیں، آئندہ نہیں کہوں گا"

شکایت ابا کو لگائی گئی تو مسجد اور گھر میں فرق ہی مٹ گیا. وہاں خدا کے گھر میں مار کھانے کے بعد اپنے گھر میں خدا نما سے سلیپر کھائے. ابا ایک ہی سانس میں ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے اور اسی سانس میں اللہ رسول سے محبت یاد دلوا رہے تھے اور میں مسلسل مار کھاتے، روتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ ایک نو سال کے بچے کو ایک بات کہنے پہ نہ اللہ اپنے ہی گھر میں بچا سکا ہے نہ میرے گھر میں

ابا قرآن تو کیا، اخبار بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، سو ان کا دیرینہ خواب بھی تھا اور مسلسل نو بچے پیدا کرتے ہوئے جانے کب یہ وعدہ بھی خدا سے کر بیٹھے تھے کہ ایک بیٹے کو حافظِ قرآن ضرور بناؤں گا. ابا گھر آتے جاتے ہر بندے کو یہ بات ضرور کہتے تھے کہ میرے باقی بیٹے میرے بڑھاپے کا سہارا ہیں اور میرا بیٹا نبیل میری آخرت کا آسرا ہے کہ ایک حافظِ قرآن روزِ قیامت گیارہ نسلوں کی بخشش کرے گا. اسی لیے میں ابا کے حکم پہ اپنی اگلی پچھلی نسلیں بخشوانے کی مشقت میں پڑا ہوا تھا

ابا کے حکم کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی. کبھی کبھی تو لگتا کہ ابا کے حکم کے آگے تو خدا بھی نہیں چلتی. بہنیں گھر داری میں ابا کے حکم ناموں پہ چل رہی تھیں اور بھائی سب ابا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیے سکول کی کتابوں کے یونہی رٹے لگا رہے تھے جیسے میں قرآن کے

سو گاؤں کی جامع مسجد میں آگے پیچھے، مسلسل ایک ردھم میں، ہلتے ہوئے مولوی صاحب عبدالحق کی ٹاہلی کی چھمکیں کھاتے، روتے دھوتے، رٹے لگاتے، جیسے تیسے کر کے آدھا قرآن تین سال میں حفظ کیا ہی تھا کہ ابا کی ناگہانی موت نے جیسے وقت ہی روک دیا تھا. حکم آنے ایک دم بند ہو گئے. اماں ایک طرف ابا کی لاش کو دیکھتی تو ایک طرف باقی بہن بھائیوں کو. سب ایک طرف سر جھکائے بیٹھے تھے اور میں مسلسل ابا کے سرہانے بیٹھا ابا کے پیار اور مار کے بیچ لڑھکتا ہوا اپنی تین سالہ محنت دہرائے جا رہا تھا

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...