گونگے دن ہیں راتیں چپ ہیں
رات کے کالے سیاہ دیو کی
سرخ انگارہ آنکھیں چپ ہیں
وقت کے پاؤں جمے ہوئے ہیں
دل کی دھڑکن مر رہی ہے
مرتی کھنچتی سانسیں چپ ہیں
اٹھے ہاتھوں پہ دھول پڑی ہے
لفظوں کے کفن کھلے ہوئے ہیں
دعاؤں کی ننگی لاشیں چپ ہیں
گونگے دن ہیں راتیں چپ ہیں
رات کے کالے سیاہ دیو کی
سرخ انگارہ آنکھیں چپ ہیں
وقت کے پاؤں جمے ہوئے ہیں
دل کی دھڑکن مر رہی ہے
مرتی کھنچتی سانسیں چپ ہیں
اٹھے ہاتھوں پہ دھول پڑی ہے
لفظوں کے کفن کھلے ہوئے ہیں
دعاؤں کی ننگی لاشیں چپ ہیں
زندگی مجھے اپنے میلوں اور جھمیلوں میں لیے پھرتی رہی اور میں سر پٹ دوڑتے وقت کی دُم زور سے پکڑے دوڑتا کم گھسٹتا زیادہ رہا اور اب ہانپ کے گر چکا ہوں
ابھی ابھی سفید کپڑوں میں ایک خوبصورت نرس آئی تھی، زندہ مسکراہٹ لیے مجھ سے میرا حال پوچھا اور پھر کچھ دوائیں دے کے پھر آنے کا کہہ کے چلی گئی جیسے اسے امید ہو کہ یہ زندگی کی دوڑ سے تقریباً باھر پڑا بوڑھا، اس کے دوسرے راؤنڈ تک سانسیں گھسیٹ ہی لے گا
ایک وقت تھا اور زیادہ دور کا بھی نہیں کہ جب محاورۃ ایک ہی سانس میں ایسی ایسی کہانی سنا جاتا تھا کہ لوگ سانس لینا بھول جاتے تھے. میں نے بچپن سے اب تک، صرف اپنا جہلم شہر دیکھ رکھا تھا مگر میری کہانیاں دہلی اور لکھنؤ کے نوابوں کے ایسے ایسے سربستہ راز کھولتی تھیں کہ سننے والے جیسے خود کو وہیں پاتے ہوں. کبھی مرزا غالب کے ساتھ آم کھاتے ہوئے ہماری گفتگو سناتا تو سننے والے جملوں کو شعر سمجھ لیتے. کبھی روم کی پتھریلی گلیوں میں اٹالین حسیناؤں کے پاس سے اپنا سیاہ گھوڑا دوڑاتے نکلتا تو وہ دیوار کے ساتھ لگ جاتیں اور دور تک ان کی نظریں میرا پیچھا کرتیں اور سننے والے گھوڑے کی ٹپ ٹپ صاف سنتے دکھائی دیتے. کبھی افریقہ کے جنگلوں میں میری شیر سے لڑائی اور پھر ہماری شیر کے مرنے تک کی دوستی کے قصے سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتے.
میں وہاں وہاں پہنچا جہاں تک کا کبھی نام سنا یا پڑھا تھا اور مجھے سننے والے بھی یقیناً اب ویسے ہی وہاں وہاں پہنچتے ہوں گے جہاں تک کی راہ میں انھیں "سنا" آیا تھا
ابھی ساتھ والے بیڈ پہ پڑے میرے ہی ایک ہم عمر کو گھر والے کلمہ پڑھنے کی تلقین کر ریے ہیں اور وہ منہ ہی منہ میں جانے کیا کہہ رہا ہے،وہ اسے اللہ یاد دلا رہے ہیں تو مجھے بھی یاد آیا کہ مجھ میں اور اللہ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں. کہانی یوں ہے کہ نہ میرے آگے پیچھے کوئی ہے نہ اس کے. ہم اکیلے ہیں دونوں.. میں بھی جہلم سے باھر کہیں نہیں گیا اور وہ بھی آسمان کے جانے کون سے کونے میں زندگی کاٹتا رہا ہے، کبھی اسے زمین پہ آتے نہیں دیکھا. دو ٹانگیں کبھی جو پورے جسم کا بوجھ ڈھوتی تھیں، اب وہی دو ٹانگیں سوٹی کے سہارے گھسیٹ رہا ہوں، یقیناً اللہ بھی میری طرح کسی عصا کا محتاج ہو گیا ہو گا. وہ بھی زندگی کے میلوں اور جھمیلوں سے گزرتا گزرتا، لمبی لمبی کہانیاں چھوڑتا اب کہیں بستر علالت پہ پڑا میری طرح سانس کھینچ رہا ہو گا. ہر پانچ چھے منٹ کے بعد اس کی چھاتی سے بھی کھانسی کا طوفان بدتمیزی امڈتا ہو گا اور پھر اس طوفان کے گزر جانے کے بعد میری طرح آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرنے کی ہمت بھی نہ پاتا ہو گا. آپ اسے پانی کہہ سکتے ہیں مگر جب میری عمر تک پہنچیں گے تو آنکھ سے جو بھی نکلے گا، آنسو ہی لگے گا
سچ تو یہ ہے کہ سب کہانی ہے، میں بھی، خدا بھی اور ہم دونوں کی سنائی کہانیوں کے علاوہ میرے اور خدا کے درمیان ایک بات اور بھی مشترک ہے... ہم دونوں مر رہے ہیں
دائیں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں سگریٹ دبائے، بند مٹھی سے کش لگاتا وہ گھر کی طرف جا رہا تھا. گرمی کہتی تھی کہ میں آج ہی دوزخ سے نکلی ہوں. گلیاں چپ تھیں، کتے دیواروں کی چھاؤں میں آدھ موئے پڑے تھے. گھر کے دروازے کی کنڈی جیسے ابھی ابھی لوھار کے ہاں سے نکلی تھی. کنڈی بجانے پہ ثریا نے دروازہ کھولا اور پھر اس کے پیچھے دروازہ کو کنڈی لگا کے چھوٹا سا صحن پار کرتے برآمدے سے کمرے میں جا رکے. پنکھا چل رہا تھا اور وہ سر پہ باندھے کپڑے کو اتار کے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. ثریا چھابڑی میں دو روٹیاں، ایک پلیٹ میں کھکڑی اور بڑے مگ میں لسی لے آئی. ساتھ والے کمرے میں ناہید اور رفاقت ، کالج اور سکول سے آنے کے بعد سو رہے تھے. سارا گاؤں ہی سو رہا تھا مگر وہ روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالتے اور ساتھ کھکڑی کھاتے کسی حساب کتاب میں گم تھا
سب اسے استاد حسابی کہتے تھے گو کہ نام اس کا شوکت علی تھا. وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کام بہت ناپ تول کے اور حساب کتاب لگا کے کرتا تھا. پڑھا لکھا وہ تھا نہیں مگر جوانی کے پہلے سال کنڈکٹری کرتے اور پھر آدھی سے زیادہ عمر ویگن کی ڈرائیوری کرتے وہ کافی سیانا ہو چکا تھا. اپنی ویگن ڈالتے بھی اس نے اِیچی بِیچی کا حساب لگایا تھا
اور آج..... آج اس کے حسابوں پہ عذاب اترے تھے
آج دن میں جب وہ شہر سے گاؤں کا روٹ لگانے کے بعد، اپنے کنڈکٹر جُورے کے ساتھ خالی گاڑی لے کے شہر کی طرف جا رہا تھا تو گاؤں سے باھر وہ پیشاب کرنے کے لیے کھڑی فصلوں می گھسا اور کچھ دور کھیتوں میں اسے ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کی بانہوں میں گھسے نظر آئے. وہ تجسس میں دبـے پاؤں کچھ اور آگے بڑھتا گیا اور پھر اس کے پاؤں جیسے کسی بلا نے جھکڑ لیـے. وہ ناہید تھی، اسی کی بیٹی اور وہ لڑکا گاؤں کا سب سے لوفر اور بدمعاش لڑکا آصف تھا. دوپٹہ اور بیگ زمین پہ پڑے تھے اور آصف کے ہاتھ ناہید کے جسم پہ کہیں رک نہیں رہے تھے
وہ زمین میں گھڑا کھڑا تھا،آنکھیں دھندلا رہی تھیں، اس نے کندھے سے چادر اتاری آنکھیں صاف کیں اور بھاری قدموں سے واپس گاڑی کی طرف مڑ گیا
ثریا نے برتن اٹھائے اور وہ سر پہ چادر باندھتے صحن پار کر گیا. باقی کا سارا دن وہ گاڑی چلاتا رہا اور ذہن میں آندھیاں چلتی رہیں کہ چھوٹا سا گاؤں ہے، سارے گھروں کی چھتیں ایک دوسرے سے سر جوڑے کھڑی ریتی ہیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یوں لمحوں میں چھتیں پھلانگ جاتی ہے، ناہید والی بات جانے کس کس تک پہنچے گی، جانے کس کس تک پہنچ بھی چکی ہو.. اور آصف ،وہ تو سب دوستوں کو چسکے لگا لگا کے سنا رہا ہو گا.. سگریٹ انگلیوں میں دبتے رہے اور راکھ ہوتے رہے اور شام آٹھ بجے تک وہ گاڑی چوہدری رحم دین کے ڈیرے پہ کھڑی کر چکا تھا. ڈیرے پہ بھینسیں تھیں، چوہدری کے ٹریکٹر تھے گاڑیاں تھیں اور رکھوالی کے لیے دو کتے بھی تھے، سو گلی میں کھڑی کرنے کے بجائے استاد حسابی ڈیرے پہ ویگن کھڑی کرتا تھا
وہ بند مٹھی میں سگریٹ کے دھواں کھینچے اور ایک ہاتھ میں برفی کا شاپر لیے گھر گھسا ناہید کی تو جیسے جان برفی میں بند رہتی تھی .. ناہید نے برفی دیکھی تو لپک کے آئی اور شاپر اس کے ہاتھ سے لے کے اچھلتی رسوئی کی طرف چل پڑی. اس نے نلکے پہ جا کے پہلے مٹی سے اٹے جوتے اور پیر دھوئے، پھر ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اور گیلے ہاتھ آدھے گنجے سر پھیرے تو سر کو کچھ سکون ملا. چارپائی پہ بیٹھا اور ناہید روٹی سالن لے کے آ گئی. حسب معمول ناہید کھانا رکھنے کے بعد اس کے سر اور کندھے دبانے لگی. لقمے اس کے حلق میں اٹک رہے تھے. ناہید اس کی پہلی اولاد تھی، رفاقت ناہید سے چھے سال چھوٹا تھا اور وہ چھوٹی سی تھی تب سے وہ ہر شام اس کے گھر آنے پہ اپنے چھوٹے چھوٹے نرم ہاتھوں سے اس کا سر دباتی اور وہ کھانا کھاتا، وہ ناہید کو اپنی جمع پونجی کہتا تھا
صحن میں چار چارپائیاں پڑی تھیں، درمیان میں ثریا اور رفاقت کی چارپائیاں تھیں جبکہ مشرق میں استاد حسابی اور مغرب کی طرف ناہید سوئی ہوئی تھی. چاند کہیں نہیں تھا اور کالے آسمان پہ تارے ہی تارے تھے. استاد حسابی سیدھا لیٹا تاروں کو گھورتا کسی حساب میں گم تھا. رات گہری ہو چکی تھی اور سونے والوں کی نیندیں بھی گہری تھیں
وہ حساب کتاب لگا چکا تو بـے آواز اٹھا، پائنتی پہ پڑی چارد کو لپیٹ کے رسی سی بنا لی اور دبـے پاؤں ناہید کی چارپائی کی طرف چلا. ناہید بائیں طرف لیٹی ، بایاں بازو سر کے نیچے دیـے، سو رہی تھی.. اس نے رسی بنی چادر اس کی ٹانگوں کے اوپر سے ڈال کے چارپائی کے گرد گرہ لگا کے باندھ دی. پھر دبـے پاؤں اپنے بستر سے سرھانا اٹھایا اور اسے ناھید کے منہ پہ رکھتے ہوئے اس پہ اپنا سارا وزن ڈال کے ڈھے گیا. ناہید اس کے وزن کے نیچے اور بندھی ٹانگوں کے ساتھ زیادہ ہل جل بھی نہ سکی، بس مدھم سی غر غر کی آوازیں نکلتی رہیں اور پھر وہ بھی بند ہو گئیں. وہ ناہید کے اوپر سے اٹھا اور سرھانا بغل میں دبایا، بندھی ٹانگیں کھولیں اور رسی لے کے اپنی چارپائی کے پاس پہنچا. اس نے پلٹ کے ناہید کی طرف دیکھا اور پھر سرھانا اور چادر رکھ کے واپس ناہید کی طرف گیا، اس کی قمیص درست کی اور اس پہ چادر دے کے اپنی چارپائی پہ اس رسی کو چادر بنا کے لیٹ گیا
وہ تاروں کو گھورتا گھورتا غنودگی میں گیا ہی تھا کہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا
اس نے ناہید کی سانسیں بند کرنے کے سب حساب کتاب کر لیـے تھے مگر آگے کی پریشانی نے اس کے ماتھے پہ پسینہ چھوڑ دیا تھا کہ صبح جنازے پہ، پھر گھر افسوس پہ آنے والوں کے لیے، پھر ناہید کے قل، پھر چار جمعراتوں کے ختم اور چالیسویں تک، اس کی ساری جمع پونجی ختم ہو جانی ہے بلکہ بات ادھار مانگنے پہ جا پہنچے گی
تم اچھے رہے دوست
جو ماں باپ نے سمجھایا، اسے مان لیا
جو مولوی نے پڑھایا، اسے ایمان لیا
جو سکول میں استادوں نے رٹایا
اسے حق جان لیا
تم اچھے رہے دوست
تم نے سوال نہیں سوچے
صرف جواب یاد رکھے
ہم نے جوابوں میں بھی کئی کئی سوال کھوجے
تم اچھے رہے دوست
تم نے اپنے اردگرد کھڑی دیواروں پہ
رنگ برنگی تصویریں ٹانک دیں
اور ہم
ہم ہر روز انھیں دیواروں سے سر پھوڑتے ہیں
اور اپنے خون سے یہ کالی دیواریں لال کرتے ہیں
میں تھک چکا ہوں
اے میری عمرِ رواں
تیرے قدموں کے نشاں
ناپتے ناپتے
گر چکا ہوں
اپنے ہی سائے پہ اوندھے منہ
اپنے ہی بوجھ تلے
ادھڑی ہوئی چند سانسیں
جو ہیں باقی
انہیں کھینچ رہا ہوں بدن سے
ایسے جیسے
اپنی صلیب کندھے پہ اٹھائے یسوع
چھوڑ رہے ہوں بستی اپنی
مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور ہم سب گرمیوں کی راتیں کھلے آسمان کے نیچے صحن میں سوتے تھے، رات کو اچانک جب مُوتنے کی حاجت ہوتی تو میں بجائے ٹائلٹ میں جانے کے، جانے کیوں اماں کی لگائی کیاری کا رخ کرتا اور پودوں پہ مُوت دیتا تھا
پہلے پہل اماں بہت پریشان ہوئیں کہ اچھے خاصے بڑھتے پودے کس کارن جل جاتے ہیں، مرجھائے جا رہے ہیں. وہ نئی مٹی لاتیں کھاد ڈالتیں اور میں پھر کسی رات اٹھتا اور کاروائی ڈال آتا. میں اماں کی پریشانی سے قطعی واقف نہیں تھا. سکول، سکول سے گھر، گھر آ کے بھی سکول کے بستے میں ہی گھسے رہنا، یہی تمام دن تھے. لیکن جس دن اماں کی پریشانی کا علم ہوا تب میرے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ پودے پانی سے جیتے ہیں مگر مُوتنے سے جل جاتے ہیں، مر جاتے ہیں. سو وہ دن اور آج کا دن، اماں کی لگائی کیاری پہ پودے جلنے بند ہوگئے، اب اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی ،بھانت بھانت کے رنگوں کے پھول جیسے کسی نے پچکاری چلا رکھی ہو
پھر ایک دن مجھ پہ یہ انکشاف ہوا کہ بہار، صرف اماں کی لگائی کیاری پہ نہیں آئی، رابعہ کے بدن پہ بھی اتری ہے. وہی رابعہ جس سے بچپن میں لڑائی بھی ہوا کرتی تھی اور واحد ساتھی ہونے کے ناطے ہر کھیل بھی ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے. رابعہ پھوپھی زاد تھی اور ہمارے گھر کے پچھواڑے رہتی تھی
اس دن اچانک آندھی آنے پہ رابعہ اپنی چھت پہ سوکھنے کو ڈالے گئے کپڑے اتار رہی تھی اور تیز ہوا نے اس کی قمیض اس کے جسم سے چپکا دی تھی تو اچانک میری نظر نے بچپن کی ساتھی کی جسم کیاری پہ اتری بہار کو دیکھا. وہ تو کپڑے اکٹھے کر کے نیچے چلی گئی مگر میرے اندر آندھی چلتی رہی
کچھ مناظر آنکھوں میں یوں پیوست ہو جاتے ہیں کہ ہٹتے نہیں. میں بہار کا ڈسا ہوا تھا، مجھے ہر طرف وہی پھول لہراتے دکھائی دے رہے تھے. جسم میں جیسے کرنٹ دوڑتا تھا، ریڑھ کی ہڈی میں جیسے لہریں سی اٹھتی تھیں. ہر وقت بستے میں گھسا ہوا سر، بستے سے باھر آ چکا تھا، جوانی دہلیز پار کر آئی تھی اور دماغ میں منصوبـے چل رہے تھے
زبان اکثر گنگ رہتی مگر رابعہ نے آہستہ آہستہ میری آنکھوں کی بـے تابیاں پڑھتی شروع کر دی تھیں، بچپن کے ساتھی تھے، اس کی ہلکی شرماہٹ، پسندیدگی کے پیغام دینے لگی تھی. اب آمنا سامنا ہونے پہ وہ پہلے کی طرح بات نہیں کر پاتی تھی، دوپٹہ مستقل کندھوں پہ ٹکنے لگا تھا اور یہ دوپٹہ مجھے زھر لگتا تھا
پھر ایک دن وہ چھت پہ اکیلی مل گئی. یہ وہ دن تھا جس سے اگلے دن مجھے ماموں زاد بھائی کی شادی پہ ان کے گاؤں جانا تھا اور واپسی چار پانچ دن بعد تھی
وہ چھت کے ایک کونے میں بیٹھی کوئی ڈائجسٹ گھٹنوں پہ رکھے پڑھ رہی تھی، ایک چپل پاؤں سے اتری ہوئی تھی مگر دوسری چپل پہن رکھی تھی. دوپٹہ داہنی طرف چھت پہ پڑا تھا، وہ کسی کہانی میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میں اچانک جا پہنچا، وہ اچھل کے کھڑی ہو گئی، ڈائجسٹ گر پڑا اور وہ دوپٹہ اٹھانے کو جھکنے ہی لگی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدھا کیا، اس کا داہنا کندھا میری چھاتی سے آ لگا. ایک پل کو میری طرف دیکھ کے اس کی نظریں نیچے پڑی چپل پہ گڑ گئی تھیں. اس کے گالوں پہ گلابی رنگ چھلک رہا تھا
"چھوڑو ہاتھ، عاطف ہاتھ تو چھوڑو" کہتے ہوئے اس کا داہنا کندھا مزید میری چھاتی میں گھس رہا تھا، میں نے دوسرا ہاتھ پیچھے سے گھما کے اس کے بائیں بازو کو پکڑا اور اس کے گال پہ اپنے ہونٹوں کی مہر لگا دی. اس کی جیسے جان ہی نکل گئی ہو، وہ کسمسائی، میں نے دایاں ہاتھ چھوڑا اور اس کے بدن کی کیاری کے کھلتے پھولوں کو پکڑ لیا، اس بـے جان سی رابعہ میں جیسے بجلی آ گئی، اس نے تڑپ کے خود کو مجھ سے علیحدہ کیا. وہی گال جو گلابی تھے، خون کی طرح لال ہو گئے، اس کی جھکی نظریں اب میری آنکھوں میں جھانک رہی تھیں اور ان آنکھوں میں تیرتا پانی جیسے مجھے چلو بھر میں ڈوبنے کو کہہ رہا تھا. میں نے"رابعہ" کہہ کے ہاتھ بڑھانے کی کوشش ہی کی تھی کہ وہ چنگھاڑی
"بسسس بسسس بسسس.... دوبارہ نہ میرا نام لینا کبھی اور نہ کبھی میری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنا"
اس کی آنکھیں تھیں کہ پتھر تھے کوئی، وہ چپل، دوپٹہ اور ڈائجسٹ وہیں چھوڑ کے نیچے جا چکی تھی اور میں... میں نے پھر سے بہار اتری کیاری پہ مُوت دیا تھا
تے فیر تیرے "کُن" نوں زنگ لگ گیا اے
کہ توں وسدا مِینہہ روک نئیں سکدا !!
سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...