Friday, February 15, 2019

خدا، انسان اور پتھر

یہ تب کی کہانی ہے جب خدا پہ جوانی تھی اور وہ پتھر کا ہوا کرتا تھا.. جی میں آیا تو آدم کو بنا دیا، پھر آدم کی جی پشوری کو حوا بنا ڈالی.. دونوں کی دل پشوری کو جنت میں "جو مانگو ملے گا" کی بنیاد رکھ ڈالی.. انعامات، خواہشات سے بڑھ کے... خادمین، طلب سے کہیں زیادہ... بس منع کر دیا کہ جو بھی کرنا ہے کرو، بس وہ والا سیب مت کھائیو... اب اشارہ کر کے بتایا بھی دیا کہ وہ والا نہیں کھانا، سو آدم نے وہی چکھنے کی جسارت کی.. جنت نکالا دے دیا، زمین پہ پٹخ دیا...
جوانی تھی خدا پہ، پتھر دلی سے حوا کو عرب کے صحراؤں میں اور آدم کو سری لنکا کے جنگلوں میں پھینک دیا.. شرمندگی سے آدم کے پاؤں من من بھر کے ہو گئے، مگر بھری پری دنیا میں یہ دو ہی تو انسان تھے، مل گئے کہیں دوبارہ...
پھر وہی سیب کی لذت چکھی اور پھر اولاد بھی ہو گئی... بڑے بیٹے کو چھوٹے نے خود اپنے ہاتھوں سے مار دیا.. صبح پیدا ہوئے بیٹے کی شادی شام کو پیدا ہوئی بیٹی سے کی جاتی تھی... اولاد بڑھی، نسل بڑھی.. خدا کا دل نہ پسیجا... بستیوں کی بستیاں کبھی سمندروں کی لہروں کی نذر کر دیں، کبھی بارش ایسی برسائی کہ ملک کے ملک بہہ گئے... کبھی بجلی ایسی گرائی کہ نشیمن کیا، پورے پورے شہر خاکستر کر دئیے...

کروڑوں سال گزر گئے... آدم کی نسل نے اپنا بدلہ لے لیا.. دنیا کو ہی جنت بنا ڈالا..جہاں چاہا باغات بنا ڈالے، پہاڑوں پہ رونقیں لگا دیں.. جن ہواؤں پہ کبھی صرف جنات چٹائی پہ سفر کرتے تھے، انسان آرام دہ سیٹوں پہ کرنے لگے.. جن سمندروں میں کبھی صرف عذاب کے لیے طوفان اٹھا کرتے تھے یا مچھلیاں کھانے کی جدوجہد کی جاتی تھی ، انسان نے وہاں پہاڑوں جیسے بحری جہاز چلا دئیے.. پتھروں سے بنی عمارتیں آسمان کی چھاتی چھیلنے لگی.. ترقی ہوتی رہی.. چاند فتح کر لیا گیا.. باقی سیاروں کی طرف مارچ جاری ہے... مریخ پہ پانی تلاشا جا رہا ہے...ہر بیماری ڈھونڈ لی بیماری کا علاج بھی.. زلزلے سے سونامی تک سبھی کی وجوہات روز روشن کی طرح سامنے رکھ دی گئیں ..جو کبھی مذہبی و جذباتی ایمان افروز واقعات تھے، اب قصے کہانیاں لگنے لگے ...زمین تنگ پڑنے لگی ہے اور آسمان، اچھلو تو ہاتھ لگا لو...
ابھی انسان مسلسل سفر میں ہے... یہ اب کی بات ہے جب خدا کہیں بھی نہیں ہے اور ہر طرف پتھر ہی پتھر ہیں...

Thursday, February 14, 2019

میرا شہر

نام تھا اس کا شہر بانو اور یہ سارا شہر میری بانہوں میں تھا... اس کی سانسوں کی آوازیں میرے کانوں کو سہلا رہی تھیں، اس کے دل کے مُکے میری چھاتی پہ برس رہے تھے... یہ پہلی بار تھی کہ وہ گلے کا ہار ہوئی تھی.. دوست کے خالی پڑے فلیٹ میں جب اسے ملنے کا کہا تھا تو اس کی آنکھوں سے گلابی رنگ پھوٹنے لگے تھے.. گردن مسلسل انکاری تھی اور جسم مکمل راضی... گھبراہٹ جو اس میں تھی نہیں جانے کہاں سے کوندی تھی.. مگر وہ ملنے آ گئی...
میں شہر کی مشہور "پاور الیکٹرانکس" میں کام کرتا تھا اور وہ وہاں موبائل خریدنے آئی تھی... خوبصورت وہ بلا کی تھی.. مجھے آج بھی یاد ہے جب داخلی دروازے سے وہ اندر آئی تھی تو آگ پکڑتے سرخ بالوں سے برف جھاڑ رہی تھی.. میرا دل دو دھڑکنیں مِس کر گیا تھا... میں نے سروس دی تھی اسے اور ایسی دی کہ آج وہ میری بانہوں میں برف کی طرح پگھل رہی تھی...
کھڑکی پہ برف گرتی تھی اور مٹ جاتی تھی، شیشے اندر سے دھندلا چکے تھے... آتش دان میں لکڑیاں جل رہی تھیں اور 'سارا شہر' پسینے میں ڈوبا ہوا تھا...
میں شہر فتح کر چکا تھا اور کسی فاتح کی طرح ٹانگیں پھیلائے صوفے پہ بیٹھا ہانپ رہا تھا جب وہ مارلبرو گولڈ کے کش لگاتی ناروے کے حسین مناظر جیسے جسم کو کپڑوں میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی..
میں اپنی تمام تر بری عادتوں اور حرکتوں کا اعتراف کر چکا تھا اور وہ اپنی زندگی کے حسین اقدامات مجھے بتا چکی تھی...ہم ایک دوسرے کو قبول کر چکے تھے...
اب مرحلہ تھا اماں سے ملوانے کا... سو ایک دن اماں کو شہر بانو بارے بتانے کے بعد انھیں ملوانے کی غرض سے سویڈن کے بارڈر پہ شاپنگ ٹور کا پروگرام بنایا اور ہم تینوں نکل لیے..
بیباک تو وہ تھی ہی، اعتماد کا تڑکا اس پہ الگ تھا.. میرے کہنے پہ اس نے شلوار قمیض پہن تو لی تھی مگر گلا کافی کھلا ہونے کے باعث اماں اس کی طرف دیکھ کم ہی رہی تھی.. ناک کے بیچوں بیچ نتھلی ڈالے وہ اپنے اسی کھلے ڈلے انداز میں اماں سے باتیں کرتی رہی... خیر شاپنگ ٹور سے واپسی پہ اسے گھر اتارا اور میں اماں کو لے کے گھر آ گیا...گھر آنے کے بعد اماں مکمل خاموش تھی اور مجھے شہربانو کے میسجز پہ میسجز آ رہے تھے کہ کیسی لگی میں اماں کو...
رات کو اماں کو گھیر ہی لیا...
"اماں بتاؤ پھر کیسی تھی شہر"
اماں نے تسبیح میز پہ رکھی اور پہلے مجھے دو منٹ دیکھتی رہی اور پھر بولی
"پُتر ،کُڑی تے مینوں دو نمبر لگدی اے"
"تے اماں تیرا پُتر کیہڑا اِک نمبر اے"
میرے یہ کہنے پہ اماں نِما سا مسکرائی اور بولی "پتر فیر ٹھیک اے ،مینوں ایہہ رشتہ منظور اے".....

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...