Thursday, August 15, 2019

طاری کی گرفتاری

میری تو مجبوری تھی مگر یہ شبیرا پچھلے دو دن سے پانچ وقت کی باجماعت نمازیں کن چکروں میں پڑھ رہا تھا.. میری مجبوری ابا جی کے بزورِ ایمان و بازو و جوتے پر قائم تھی مگر شبیرے کی کوئی ایسی مجبوری تھی ہی نہیں.. (شبیر وہ صرف شناختی کارڈ پہ تھا ورنہ پیدا ہونے سے آج تک کبھی اسے شبیر نہیں کہا گیا تھا، وہ شبیرا ہی تھا)

پہلے تو اس کی باجماعت نمازیں ہی ہضم نہیں ہو رہی تھیں اوپر سے ہر نماز کے بعد کبھی سیپارا لے کے بیٹھ رہنا کبھی اضافی نوافل پڑھنے لگنا تو میرے حلق میں اٹک گیا تھا..

اس دن بارش زوروں پہ تھی سو جماعت میں مولوی صاحب سمیت سات افراد ہی تھے جن میں ایک میں مجبور اور ایک شبیرا بھی تھا... سب چلے گئے تو میں نے اسے جا لیا.. میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ رو دینے کو تھا.. اور اتنے خشوع و خضوع کی وجہ تھی طارق عرف طاری کی گرفتاری.. طاری اس کا دوست تھا اور چور تھا...

ہوا یوں کہ طاری اپنی گینگ کے ساتھ چوری کرنے ایک ایسے گھر پہنچا جہاں صرف ایک بوڑھی خاتون رہتی تھیں، جن کے دونوں بیٹے امریکہ میں رہتے تھے اور اپنے علاقے کے امیر ترین لوگ تھے.. بوڑھی دادی کو ملنے ان دنوں امریکہ سے پوتی بھی آئی ہوئی تھی ...

طاری گروپ دیوار پھلانگ کے اندر گھسا اور الماریوں کی خاموش تلاشی شروع کر دی... کچھ ہاتھ لگتا گیا مگر کھٹکے سے یا جانے کیسے دادی کی آنکھ کھل گئی اور پھر دادی کے چِلانے پہ پوتی کی بھی.. سو عین اصول کے مطابق یہ بھاگنے کا وقت تھا مگر دادی کی مسلسل چیخ پکار کو بند کرنا بھی ضروری تھا... سو طاری نے دادی کے منہ پہ ہاتھ رکھا اور پستول پوتی کی طرف کر کے منہ بند رکھنے کو کہا... دادی پہلے کسمسائی پھر ہاتھ کے پیچھے سے اس کی گھوں گھاں رکی تو طاری نے ہاتھ ہٹایا... جب وہ دادی کو چپ کرا کے مڑا اور دو چار قدم ہی چلا تو دادی کی آواز نے اس کے پاؤں جیسے برف میں لگا دئیے

"تُو طاری ہے ناں، تُو طاری ہی ہے"

گھبراہٹ میں کچھ نہ سُوجھا، پلٹا اور گولی دادی کے سینے میں داغ کے دیوار پھلانگ گیا....

دونوں بیٹے امریکہ سے آئے اور پوتی کی گواہی میں دادی کے قتل کی ایف آئی آر طاہر عرف طاری کے خلاف کاٹ دی گئی.. گھر سے طاری کو گرفتار کیا گیا اور پھر پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا گیا...

سو شبیرے کی ساری نمازیں، مناجاتیں اپنے دوست طاری کی جان بخشی کے لیے تھیں... اپنی دلچسپی کے لیے میں بھی اس واقعے سے جڑ گیا اور پھر ساری بات یوں ہوئی...

گجرات کے نامور سیاسی خاندان سے تعلق تھا امریکہ پلٹوں کا سو طاری کی خاطر مدارت جیل میں خوب ہونے لگی.. تب تک مارا پیٹا جاتا جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جاتا... چودہ دن کے ریمانڈ میں طاری تمام تر تشدد کے باوجود اپنی بیگناہی پہ اَڑا رہا تو مزید ریمانڈ لے لیا گیا اور پھر اس کی خوب خاطر مدارت ہونے لگی..

طاری جی دار تھا... تشدد برداشت کرتا رہا مگر یہ ماننے سے مسلسل انکاری تھا کہ اس نے چوری کی اور قتل کیا... جن کی ماں مری تھی وہ پولیس پہ غصہ نکال رہے تھے کہ ایک سنگل پسلی چور سے اقرارِ جرم تک نہیں کروا سکتے.. پولیس پہ سیاسی خاندان کا زور بھی بڑھ رہا تھا سو سرگودھا سے ایک حوالدار کو منگوایا گیا جو "تفتیش" کرنے اور اقرارِ جرم کروانے میں پورے پنجاب میں مشہور تھا... آج تک اس نے چونسٹھ کامیاب "تفتیشیں" کی تھیں... طاری اس کی پینسٹھویں تفتیش تھا...

حوالدار پہنچا، ساری کہانی سنی اور تفتیشی کمرے میں گھس گیا... پہلے راؤنڈ میں اپنے داؤ پیچ لگائے.. پھر کچھ وقفے کے بعد دوبارہ چٹخنی لگا کے شروع ہو گیا... چیخوں کی آوازیں تھمیں تو بند کمرے سے حوالدار بنیان میں سے باھر لٹکتے پیٹ کو کھجاتا باھر آیا اور پانی کا آدھا جگ پینے کے بعد بولا

"دیکھیں جی، دو سخت راونڈز میں وہ مانا نہیں.. میرے پاس اب آخری داؤ ہے، اس میں تکلیف سے یا تو بندہ اقرار کرتا ہے جو کہ آج تک ہوتا آیا ہے یا پھر مر جاتا ہے، انکار کی گنجائش نہیں رہتی ... اب باقی آپ دیکھ لیں"

... دو تین گھنٹے آپس میں صلاح مشورے کے بعد حوالدار کو "گو آن" کا سگنل دے دیا گیا... تب تک امریکہ سے آئے دونوں بھائی، پولیس افسران تھانے پہنچ چکے تھے.. حوالدار اندر گھسا اور اپنے آخری داؤ آزمانے لگا... طاری کی چیخیں سارے تھانے میں گونجنے لگی...

آدھے گھنٹے بعد حوالدار پسینے میں شرابور کمرے سے نکلا اور اپنے افسروں کے سامنے تن کے کھڑا ہو گیا... کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا..
"سَر جی، یہ بندہ قاتل نہیں ہے، یہ قاتل ہو ہی نہیں سکتا"

بے ہوش، ٹوٹے پھوٹے طاری کو ہاسپٹل داخل کروا دیا گیا... کیس میں ثبوت کوئی تھا نہیں اور اقرارِ جرم ہوا نہیں...

کچھ دن بعد سرگودھا سے حوالدار خاص طور پر طاری سے ملنے ہاسپٹل آیا.. اس نے شاپر میں ڈالے کچھ پھل طاری کے سرہانے رکھ دئیے..
"دیکھیں جی،پہلی بار مجھے خوشی ہوئی ہے کہ میں ہارا ہوں، میرے آگے بڑے بڑے جی دار نہیں ٹھہرے مگر تُو سچا تھا، یہ سچائی کی طاقت تھی"...

طاری نے مشکل سے تھوک نگلا اور مری ہوئی آواز میں بولا، "بہن چود، میں نے ہی مارا تھا اس بڑھیا کو یہ چھاتی کے بیچ، کر لے جو کرنا ہے"..

حوالدار کھسیانی ہنسی ہنستا اٹھا اور پیٹ کھجاتا واپس مڑ گیا....

....( یہ ایک سچا واقعہ ہے )

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...