Tuesday, September 10, 2019

سانجھے حُسین

سارے میں آہوں اور ہچکیوں کی آوازیں تھیں ،مسجد کھچا کھچ بھری تھی .. آسمان چیرتے مینار پہ لگے اسپیکر میں سید ظفر علی شاہ کی رندھی آواز گونجی " نانے دے مونڈھے تے چڑھن آلا شہزادہ ،نیزے تے چڑھیا کڈھا سوھنا لغدا ہونا (نانا کے کندھے پہ بیٹھنے والا شہزادہ، نیزے پہ کس شان سے سجا ہو گا) " یہ کہتے ہی شاہ صاحب دھاڑیں مار مار کے رونے لگے....

اڑھائی، پونے تین سو گھروں پہ مشتمل گاؤں میں ایک گھر بھی شیعہ نہیں تھا ،کوئی تیس چالیس گھر وہابی تھے باقی سب سنی العقیدہ... مگر محرم سب کا سانجھا تھا، حسین کا درد سب کے دل کا تھا.. کوئی رونا گناہ، کوئی ماتم بدعت نہیں تھا..

محرم کی پہلی تاریخ سے حسین کے دکھ کی مدھم لو جلنی شروع ہو جاتی تھی... دن گزرتے جاتے اور حسینی قافلہ نو محرم تک جا پہنچتا... نو اور دس محرم کو روزہ رکھا جاتا... یہ روزہ رمضان کے روزوں کی طرح کوئی فرض نہیں تھا، یہ روزہ کربلا والوں کی پیاس سے سانجھ کی علامت تھا ... لوگ ثواب کی نہیں، بہتر مظلوموں کی پیاس اور تکلیف میں ساتھ دینے کی نیت باندھتے تھے... کوئی بدعت کا فتویٰ نہیں آتا تھا.. کوئی روزے کی نیت پہ شک نہیں کرتا تھا....

مساجد میں مجالس برپا ہوتیں.. کوئی شیعہ ذاکر نہیں آتا تھا.. کوفے کے دھوکے سناتے... اہل بیت کے دکھ رلاتے... کچھ چپکے روتے، کوئی آہوں سے... کچھ غم سے نڈھال ہو جاتے اور کچھ سینے کے اندر جلتے درد کو ہاتھ مار مار کے بجھاتے...

تب حسین سانجھے تھے... حسین کے ساتھی اور دشمن سب کے سانجھے ساتھی اور دشمن تھے... تب ظالم کو ظالم کہنے میں کوئی اگر مگر نہیں تھا، تب مظلوم پہ ہوئے ظلم کی کوئی توجیہہ نہیں تھی... تب ظالم، ظالم تھا اور ظالم کے ظلم و استبداد کے سامنے کھڑا ہونا حسینیت تھی...
تب حسین سانجھے تھے!!

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...