Wednesday, October 16, 2019

تماشائی

سنتے آئے ہیں کہ زندگی امتحان ہے.. امتحان میں سوال نامہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ وہ بھی معلوم ہے، بس جواب درست دینے کی مسلسل تگ و دو میں رہنا جینے کا مقصد ہے...

اب ہم ٹھہرے سدا کے نالائق، سامنے کی بات سمجھنے میں ہمیں کئی کئی دن 'ضائع' ہو جاتے ہیں، یہ تو پھر زندگی ہے، الجھی ہوئی ریشم جیسی.. ہمارے پلے کہاں سے پڑتی !!

سو آدھی عمر، زندگی کے گھمبیر سوال کی تلاش میں سر کے بال اڑانے اور داڑھی میں سفیدی اتارنے کے بعد ہم نے یہ سوال نامہ پھاڑ کے ہوا میں اچھال دیا ہے اور جواب پہ فاتحہ پڑھ لی ہے...

اب ہم کسی بھی شے یا وجود کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز تراشتے ہیں نہ جواب تلاشتے ہیں...
جب تک ہم تلاش میں تھے، ہم تماشہ تھے... اب ہم تماشائی بن کے بیٹھتے ہیں کبھی ہونہہ کہہ کر سر ہلاتے ہیں اور کبھی دانت نکال کے تالیاں پیٹتے ہیں..
اگر ہم نالائق نہ ہوتے تو یہ بات سمجھنے میں عمر نہ گال دیتے... سامنے دھرے جواب پہ قہقہے لگاتے گلی میں بھاگ گئے ہوتے...

بات یوں ہے کہ مولوی فرید ہمارے گاؤں کا ایک کردار تھا... ہمیشہ صاف سفید تہہ بند اور کُرتے میں ،سفید پگڑی باندھے صبح صبح گاؤں سے نکلتی سڑک پہ سائیکل پہ 'پیڈل' مارتا گاؤں سے نکلتا اور عصر کے بعد سائیکل پہ کچھ تھیلے لٹکائے واپس آتا دکھائی دیتا تھا...لوگ کہتے تھے کہ وہ دور دراز علاقوں میں جا کے دَم درود کر کے دیتا ہے اور پیسہ، آٹا، گندم جو ملے، لے لیتا ہے.. مگر نہ ہم نے کبھی پوچھا نہ اس نے کبھی ایسا ظاہر ہونے دیا...
شادی اس نے کی نہیں تھی اور اپنے بھائی کے گھر ہی رہتا تھا... ہم سے مسجد یا باھر جہاں بھی ملتا ہمیں ہم عمر لگتا... ہماری ابھی کہیں کہیں سے داڑھی نے سر اٹھانا شروع کیا تھا اور اس کی آدھی سے زیادہ داڑھی سفید ہو چکی تھی...اسے عمر میں بڑا اور ہمیں چھوٹا ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا...

مسئلہ ہماری آنکھ کو ہوا..داہنی آنکھ سُوج گئی اور ہم بلا وجہ 'کانے کانے' سے لگنے لگے.. جانے کیا ہوا تھا، رات کو سوئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، صبح اٹھے تو سب کو 'ایک آنکھ' سے دیکھنے لگے... اماں کے بقول رات کو کوئی کیڑا آنکھ سے گزرا ہے تو آنکھ سوج گئی ہے.. علاج بھی اماں نے یہ عنایت فرمایا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک 'بابا جی' کا مزار ہے، وہاں جھاڑو دیں تو آنکھ ٹھیک ہو جاتی ہے...

ہم نے جگری یار شاقی کو ساتھ لیا اور گپیں ہانکتے دربار پہنچے... دربار کی حالت واقعی 'جھاڑو مانگ' تھی.. دیوار کے ساتھ پڑے جھاڑو اٹھا کے بسم اللہ پڑھ کے جھاڑو دینا شروع کیا تو جانے کب ہمارے گناہ گار ہونٹ "میرے رنگ میں رنگنے والی، پری ہو یا ہو پریوں کی رانی، یا ہو میری پریم کہانی" گنگنانے لگے، شاقی کا جھاڑو ہماری تشریف پہ پڑا تو ہم تھمے..

"شرم کر حیا کر، دربار میں گاتا ہے ؟ آنکھ ٹھیک کرانے آیا ہے کہ سُر سیدھے کرانے"... شاقی اپنی ہی جگت پہ ہنسنے لگا اور ہم دونوں ہنستے ہوئے "میرے سوالوں کا.. جواب دو... دو ناں" گاتے جھاڑو دے کے نکل آئے...

عصر کی نماز تک واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ہم بدستور 'ایک آنکھ سے دیکھ رہے تھے'... مسجد میں پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر 'ماسٹر حسین' نے ہمیں ایک آیت(وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ) سنا کے پوچھا "آتی ہے؟" ہم نے ایسے ہی "جی سر" کہہ دیا.. بولے، "یہ آیت پڑھتے پڑھتے شہادت کی انگلی ہتھیلی پہ رگڑتے جاؤ، جب انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ پھیرو، یہ عمل بار بار دہراتے جاؤ اور آیت پڑھتے جانا "... ہم نے پھر "جی سر" کہہ دیا....

نماز کے بعد ہم اور شاقی سر جوڑ کے بیٹھ رہے کہ وہ آیت کون سی تھی.. سوچا کچھ سپارے پھرولتے ہیں مگر تیس سپارے! اتنے میں مولوی فرید آ گیا اور ہم نے اپنی سمسیا اس کے آگے رکھ دی...مولوی فرید نے پوچھا "وہ شہادت کی انگلی گرم کی؟"... ہماری نفی میں ہلتی گردن پہ وہ ہنسنے لگا....
"یار، تو انگلی رگڑ ہتھیلی پہ اور انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ رکھ، دس بارہ بار ، کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائے گی آنکھ"....
"تو وہ آیت کے بغیر"؟؟
مولوی فرید ہنستے ہوئے اٹھا اور "تیرا سوال ہی تیرا جواب ہے" کہہ کے وضو کرنے چل پڑا....

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...