Saturday, January 11, 2020

شہنائی

ڈھول کی تھاپ پہ میرے کندھے نہ چاہتے ہوئے بھی تھرکنے لگتے ہیں مگر آج سامنے والی گلی میں ڈھول بج رہا ہے اور اپنی بیٹھک میں، میں کندھے جھکائے بیٹھا ہوں

ڈھول ایک ردھم میں بجتا ہے، پھر زور کی تھاپ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ردھم وہی رہتا ہے مگر ڈھول پہ تھاپ کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور سننے والوں کے پیروں میں جیسے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے. ڈھول بج رہا ہو اور بھنگڑا ڈالنے کا من نہ کرنا، دل پہ کالی مہر لگے ہونے کی نشانی ہے
ڈھولی ڈھول بجا رہا ہے اور شہنائی جانے کس کا ماتم کر رہی ہے . مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شہنائی کا شادی پہ کیا مطلب، شہنائی تو چیخ ہے، دل چیرنے دینے والی چیخ

اس وقت بیٹھک کے ایک کونے میں میں دبکا بیٹھا ہوں اور ایک چیخ میرے اندر دبکی بیٹھی ہے، بیٹھک میں باھر سے آتے شور کا طوفان ہے اور اندر کہیں گھپ اندھیری چُپ کا آسیب

ایک خط سامنے دھرا ہے، خط کیا ہے رقعہ ہے. کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. آدھی تقدیر کا ٹکڑا... کاغذ پہ نیلی سیاہی میں لکھے کچھ جملے ہیں ، اس پہ چار چھے جگہوں پہ سیاہی پھیلی ہوئی ہے، کچھ لفظوں کے اندر سے طوفان شاید باھر امڈ آیا ہو گا

باھر ڈھول خاموش ہو گیا ہے اور ڈیک پہ "دل کی حالت کس کو بتائیں، ہم بھی پاگل تم بھی پاگل" چل رہا ہے

کوئی ڈیڑھ سال پہلے گھر کی چھت پہ گرمیوں کی شام اتری تھی کہ چھوٹی بہن رابعہ سلیقے سے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ مجھے تھما کے بولی
باجی تانیہ نے یہ دیا ہے، کہہ رہی تھی اپنے بھائی شاہد کو تب دینا، جب کوئی پاس نہ ہو
میں نے جلدی سے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے چِلی مِلی کا لالچ دے کے کسی کو بھی بتانے سے منع کر دیا

تانیہ جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی لکھائی بھی خوبصورت تھی. ایسے لکھتی تھی جیسے 'جمال خوشخط پینٹر' سے ابا ہر سال عید میلاد النبی کا اشتہار لکھوایا کرتے تھے. میں تانیہ کو چھپ چھپ کے دیکھا کرتا تھا اور اتنا چھپ کے کہ اسے خبر ہو جاتی تھی. وہ نِمّا سا مسکراتی تو دل چھاتی سے باھر دھڑکنے لگتا

ہم خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے. پھر کبھی موقع ملتا تو روبرو ملاقات بھی نصیب ہو جاتی. دل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی تو تانیہ کی تان پہ گزارنی ہے بس... اسی سُر تان میں وقت گزرتا گیا اور پتا تب چلا جب تانیہ کے گھر 'بیری پہ پہلا پتھر' آیا.. پتھر بہت بڑا تھا، کوئی شہابِ ثاقب تھا.. تانیہ کی پھوپھی اپنے بیٹے کا رشتہ لے کے آئی تھیں اور تانیہ کے ابا اس رشتے کو انکار گویا کفر قرار دے چکے تھے.

وہی خط جو پہلے بہاروں میں کھلے پھولوں کے گلدستے لگتے تھے، سوکھے پتے اڑاتی خزاں کا مقدر ہو گئے. وہ جو مسکراتی تھی تو دل چھاتی کے باھر دھڑکتا تھا، اب آنکھوں میں آنسو لیے سامنے آتی تو دل سانس لینا بھول جاتا
سارے محلے کو پتا تھا کہ تانیہ کا رشتہ ہو گیا ہے، ایسے میں، میں ابا سے اس رشتے کی بات کیسے کرتا،بس خط میں اسے جھوٹی تسلیاں دیتا رہتا یا شاید خود کو.. ان دنوں میں صحراؤں میں رہتے بنی اسرائیل کے لوگوں جیسا ہو گیا کہ بس کچھ معجزہ ہو جائے، خدا اترے کسی چھت پہ، مجھے اور تانیہ کو آشیرباد دے کے کہے کہ جاؤ تم دونوں اب ایک ہو

کبھی سوچتا کہ اسے لے کے بھاگ جاؤں، یہاں سے دور کہ یہاں پہ معجزے بھی مر چکے ہیں. یہاں سے ہم نکلیں تو چار کوئی گھنٹے میں لاہور پہنچ جائیں گے، لاہور بہت بڑا ہے، وہاں کچھ نہ کچھ ہو جائے گا.. اپنی ادھوری پڑھائی اور مکمل بے ہُنری کے باوجود سوچ جھوٹے راہ دکھا رہی تھی. کبھی سوچتا کہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلوں، چاچا عزیز کی رائفل، جو وہ ہر دوسرے ہفتے دیوار سے اتار کے صاف کر کے واپس ٹانگ دیتے تھے، چراؤں اور تانیہ کے پھوپھی کے بیٹے کو سوتے میں ہی گولی مار دوں. تانیہ کی ڈھولی اٹھانے والے کا جنازہ اٹھے. کبھی سوچتا کہ کوئی سیلاب آئے، سارا گاؤں بہا کے لے جائے بس میں اور تانیہ بچ جائیں

انھیں سوچوں میں گم، معجزوں کی لاشوں کو ڈھوتا پھر رہا تھا کہ اس شام مایوں بیٹھی تانیہ کا خط رابعہ نے میری قمیض کی جیب میں ڈال دیا. خط کیا تھا رقعہ تھا، کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. میں جو سوچوں میں خدا اپنی چھت پہ اتار چکا تھا، جو لاہور جا کے تانیہ کے ساتھ زندگی بسر بھی کر چکا تھا، اس رقعے کو پڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا. ساری رات ہاتھ اور جیب کی جنگ جاری رہی اور صبح اس جنگ کے خاتمے کا طبل تب بجا جب ڈھول کی پہلی تھاپ کانوں میں پڑی

کاغذ کا ٹکڑا ہے ، اس پہ چند جملے گھسیٹے ہوئے ہیں جیسے لاش گھسیٹی گئی ہو

"شَیدی! آج کی رات ہے، دعاؤں کے کبوتروں کے پر، آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی جل چکے ہیں، یا تو میں تمہارے ساتھ بھاگ جاؤں یا خود کو ایک ایسی کھونٹی سے باندھ دوں جس پہ میری ماں کب سے بندھی ہے اور محلے کی ہر دوسری عورت باندھی جاتی ہے.. شیدی بس ایک اشارہ کرو میں تم سے بھی دو قدم آگے چلوں گی، میری زندگی" اس سے آگے کچھ نہیں لکھا. جملہ پتا نہیں ادھورا ہے یا پورا

باھر شہنائی پھر چیخی ہے اور بے ترتیبی سے پھٹے رقعے پہ نیلی سیاہی اور پھیل چکی ہے 

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...