Wednesday, June 17, 2020

چوتھی ‏دیوار ‏

گھر کیا ہے، چار دیواریں، تین بند دیواریں اور ایک دیوار میں اسی گھر میں گھسنے اور نکلنے کا دروازہ
گھر کی ایک دیوار مہر محمد دین کے گھر سے ملتی تھی جس کی مہری صرف نام کے ساتھ محدود تھی، دونوں بیٹے امریکہ جا بسے تھے، بڑھاپے نے کمر کمان کر دی تھی. اب یا تو مسجد میں چھوٹے بچوں کے شور پہ گالیاں نکال لیتا یا نواسے نواسیوں کے لاڈ اٹھا لیتا
گھر کی دوسری دیوار پھوپھی کی دیوار سے مل کے کھڑی تھی، جس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا دروازہ نکال لیا گیا تھا جو فائر بندی کے دنوں میں کھلا رہتا، تُو تُو میں میں ہو جاتی تو ایک چارپائی سیدھی کھڑی کر کے راہ بند کر دی جاتی. پھوپھا ریٹائرڈ صوبیدار تھے، سروس کے دوران دو چار سال کوریا رہ آئے تھے اور یہی دو چار سال سبھی رشتہ داروں کو بھاری پڑتے رہتے تھے. پھوپھی سے ہماری بنتی تھی کہ نہیں، یہ کبھی اہم نہیں رہا، اہم یہ تھا کہ پھوپھا سے ہماری کبھی نہیں بنی. جانے فوج میں ان کی نوکری کیا تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا کام ہر ایک کے، ہر چھوٹے بڑے کے معاملات کو سونگھتے رہنا تھا

گھر کی تیسری دیوار میں آنے جانے کا بھاری بھر کم دروازہ تھا، جو کسی چور کے لیے توڑنا تو نہ ناممکن تھا مگر پھلانگنا قدرے آسان تھا

چوتھی دیوار کے ساتھ ابا کے تایا زاد بھائی کی زمین کا ایک ٹکڑا تھا جسے کمر تک لمبی دیوار سے احاطہ کیا ہوا تھا. پھوپھا کی دو بھینسیں اسی احاطے میں رہائش پذیر تھیں

گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں سے تو سبھی محبت کرتے ہیں، ہمیں گھر کی چوتھی دیوار (احاطے) کے باھر بھی ایک دن محبت مل گئی

ہوا یوں کہ جانے کہاں سے آئی ایک کُتیا نے اپنے سات عدد بچوں کو چوتھی دیوار کے ساتھ جنم دیا. کتے کے وہ ساتوں پلے اتنے پیارے تھے کہ نقلی ہونے کا گماں ہوتا تھا. پہلے پہل ہم ڈرتے دور سے دیکھتے رہے، پھر دو دن بعد ہمت جمع کی اور وہاں جا پہنچے جہاں ماں اپنے ساتوں بچوں کو بیک وقت دودھ پلا رہی تھی. دودھ پینے کے بعد پلے ادھر ادھر لڑھکنے لگے. ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک پلے کو چھوا، اتنا نرم جیسے کوئی روئی کا گولہ ہو. وہ پلا ہمارے ہاتھ کے ساتھ کھیلنے لگا. ہمیں ساتوں کے سات ایک جیسے ہی لگتے تھے. جانے وہ کتیا کیسے تمیز رکھ پاتی ہو گی

چار دن کیا گزرے، پھوپھا کو اس بات کی بھنک پڑ گئی اور وہ غصے میں کتیا کو نکالنے پہ تل گئے. ہم چھوٹے تھے، سب بہن بھائیوں کی منت سماجت نے دو چار دن تک اس معاملے کو لٹکائے رکھا مگر پھوپھا کی سوئی اٹک جاتی تھی، سو وہ اٹک چکی تھی

پہلے دن میں کتیا کو بھگایا، وہ شام کو بیچاری پھر آ گئی ، صبح ڈنڈے مار کے نکالتے، شام کو لوٹ آتی. مار کے بھگانا کام نہ آیا تو پھوپھا کے فوجی دماغ نے سکیم لگائی، جب صبح کتیا نکالا بھگایا تو دوپہر کو ساتوں پلوں کو بوری میں ڈالا اور گاؤں سے دور کہیں باھر کھیتوں میں چھوڑ آئے. ہم دھندلی آنکھوں سے پھوپھا کے بائیں کندھے پہ لٹکی بوری کو دیکھتے رہے. شام کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا، ابا کی گالیاں سن کے لقمے حلق سے اتارنے پڑے. ساری رات بوریاں خوابوں میں گھومتی رہیں

صبح اٹھے اور عادتاً چوتھی دیوار کے باھر پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ کتیا وہیں لیٹی تھی اور ایک پلا ادھر ادھر گھوم رہا تھا. باقی چھے کہیں نہیں تھے، ایک واپس لوٹ آیا تھا. ہماری خوشی کو پھوپھا کی آواز نے آگ لگا دی "یہ حرام زادی پھر آ گئی" پھر وہی سکیم کہ کتیا کو بھگا دیا اور پلے کو پھر وہیں چھوڑ آئے

اگلی صبح پھر کتیا اسی ایک پلے کے ساتھ چوتھی دیوار کے سائے میں موجود تھی. پھوپھا کے ناک منہ سے دھواں نکلنے لگا. سکیم کی مسلسل ناکامی سے پھوپھا کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں. پھر کتیا کو مارا بھگایا اور پلے کو گاؤں سے باھر چھوڑ آئے.. اگلی صبح پلا اکیلا ہی واپس لوٹ آیا. کتیا احاطے میں کہیں نہیں تھی. بعد میں محلے میں ادھر ادھر گھومتی نظر آتی رہی. اکیلے پلے کو پھر اسی سکیم کے تحت گاؤں سے باھر پھینک آئے اور اگلی صبح پلا واپس چوتھی دیوار کے سائے میں سو رہا تھا. صوبیدار صاحب پھر سے اپنی ڈیوٹی دہرانا چاہتے تھے مگر اس پلے کی محبت اور ہمارے شور شرابے کے بعد اسے بخش دیا گیا اور وہ چوتھی دیوار اس پلے کا گھر ہو گئی 

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...