Thursday, April 10, 2014

نارویجن پاکستانی اور مساجد کے امام

ناروے سردیوں میں سفید اور گرمیوں میں "گرین" ہوتا ہے .. خوبصورتی بلا کی پائی ہے اس ملک نے ..محتاط اندازے سے ناروے کی کُل آبادی اکیاون لاکھ سے کچھ اوپر ہے.. آبادی کنٹرول میں ہے سو سب سُکھی رہتے ہیں.. کیپٹل "اوسلو" ہے جس کا پرانا نام "کریسٹیانیا" تھا.. اوسلو میں کُل آبادی لگ بھگ پندرہ لاکھ ہے،جن میں غیر ملکی کافی تعداد میں ہیں..
ناروے میں پاکستانیوں کی تعداد قریب قریب چونتیس ہزار ہے جن میں سے لگ بھگ اٹھارہ ہزار پاکستان سے درآمد شدہ ہیں اور پندرہ سولہ ہزار نارویجن پاکستانی ہیں ... ان میں سے کوئی ستر فی صد پاکستانی دارالحکومت اوسلو میں رہتے ہیں..
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف (جس کا وعدہ گزشتہ بلاگ میں کیا تھا).. اوسلو میں مساجد اور ہم مسلمان.. 
اوسلو شہر میں کوئی بیس سے اوپر مساجد ہیں جو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں (یعنی یہاں بھی پہچان "بے اتفاقی" ہی ہے) .. ہر مسجد کو سالانہ حکومتی سپورٹ (گرانٹ) ملتی ہے.. باقاعدہ ممبرشپ فارم بھرنا ہوتا ہے اور آپ ایک وقت میں ایک ہی مسجد سے وابستہ ہوتے ہو اور گرانٹ کی مقدار ممبران کی تعداد پہ موقوف بھی ہے اس لیے سبھی مساجد میں ممبران بڑھانے کی اولمپک ریس جاری و ساری رہتی ہے ..  چند ایک بہت بڑی مساجد شہر کے وسط میں ہیں اور بہت ذوق سے تعمیر کروائی گئی ہیں باقاعدہ مینار بھی ہیں.. ایک مسجد تو باقاعدہ ایرانی طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے ... ان مساجد کی تعمیر میں حکومت با قاعدہ مدد فراہم کرتی ہے اور  قرض بھی لیا جاتا ہے .. بہت شاندار اور بہت مہنگی مساجد تعمیر ہوئی ہیں یہاں..
ہمارے مولویوں کی ذہنی اونچائی یا گرائی کا واقعہ ملاحظہ ہو کہ اسی نوے کی دہائی میں نارویجن حکومت نے مسلم علما کو اکٹھا کیا اور آفر دی بیچوں بیچ اس شہر کے ایک ہی شاندار اور بڑی مسجد ہم تعمیر کرا کے دیتے ہیں جہاں آپ باقاعدہ کلاسز کا اجرا بھی کرا سکتے ہو اور چونکہ آپ لوگ عقائدی اختلافات باہم رکھتے ہو اس لیے ہم جو امام ہو گا وہ حرم سے مکہ شریف سے لائیں گے کیونکہ وہ واحد امام ہیں جن کے پیچھے آپ سب اکٹھے ہو جاتے ہے (حج کی طرف اشارہ تھا) .. اور پھر سب مولویوں کو اپنی اپنی چھُٹی ہوتی دکھائی دی یا وہی شیعہ سُنی دیوبندی وہابی والا دانہ اچھل پڑا اور سب اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ ڈیڑھ یا چلو دو دو اینٹ کی مساجد "کھول" کے بیٹھ گئے اور یہاں بستے پاکستانیوں کے نصیب بھی اس دن سے بیٹھ گئے ..
اب ہر مسجد ممبران کھینچنے لگی اور اسی کھیچا تانی میں مسجد کی کمیٹی کے صدر جنرل سیکرٹری وغیرہ بھی ہر بار نئے آتے اور ان کی آپس کی چپقلشیں بھی جاری رہیں بلکہ اب بھی ہیں..
اہلسنت والجماعت کی نمائندہ مسجد میں باقاعدہ چاقو چُھریاں چلے اور پھر پولیس جوتوں سمیت مسجد میں گُھسی،نا صرف جوتے بلکہ پولیس کے کُتے بھی ہمراہ مسجد میں تھے ... (اس بات کا ذکر حسن نثار صاحب نے بھی ہفتہ بھر پہلے اپنے ناروے کے متعلق کالم میں کیا).. وجہ کیا تھی .. ووٹنگ کے بعد اب کی بار جو صدر بنا وہ دوسرے گروپ کو منظور نہیں تھا ..اب گروپ بنے اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان گروپ بنا کے صرف لڑا کرتا ہے اقبال کا شاہین جو ہوا ...ایک گروپ دعوی' کرتا تھا کہ ہم نے تو بڑے بڑے عالموں کے نیچے سے مصلّے کھینچ لیے یہ اب کے امام کیا چیز ہیں.. بات ٹی وی اخباروں میں کافی دیر چلی اور ہم نے بطور پاکستانی اور مسلمان خوب داد سمیٹی ...
ایک مسجد کا ذکر جناب طاہرالقادری صاحب کے نام پہلے بلاگ میں کر چکا ہوں جہاں سے پیش امام کو فقط اس بنا پہ نکال باہر کیا گیا ان کا ویزہ بھی ختم کرو دیا گیا کہ اس اللہ کے بندے نے کہہ دیا تھا کہ صرف نبی گناہ سے پاک ہیں اور دنیا کا ہر شخص غلطی کر سکتا ہے بشمول طاہر القادری صاحب اور پھر شیخ الاسلام کے جلال کو گویا آواز دی اور باقی پھر رہے نام اللہ کا ...
ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں اولاد کا ہے کہیں "اسلام" سے دور نہ ہو جائے ... اور یہاں ہم ان کو مسلمان کم اور پاکستانی زیادہ بنانا چاہتے ہیں ... اور اسی کنفیوژن میں ہم ان کو نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا چھوڑتے ہیں... اور یہاں ایک بہت بڑی مسجد جس کے ممبران سب سے زیادہ ہیں باقاعدہ اسلامی اور اردو کی کلاسز بھی چلاتے ہیں،ذرا سُنیے اور سَر پیٹیے کہ امام صاحب نے اپنا ایک رشتہ دار منگوا لیا جو  بچوں کو تعلیم دیتا ہے جو خود مَر کے میٹرک پاس ہے ...
اب اس میں قصور ہم یہاں رہتے پاکستانیوں کا ہی ہے، ہم ان مولویوں کو آج بھی جُھک جُھک کے ملتے ہیں... ایک امام سے پوچھا گیا جب وہ ایک مسجد کی تزئین و آرائش کرا رہے تھے کہ حضرت شاہ جی، وہ فلاں بندہ "پَب" چلاتا ہے  رات دن شراب بیچ کے خوب مال کماتا ہے اور آپ کی مسجد میں وہ سب سے زیادہ چندہ دیتا ہے،شراب کی کمائی کی مسجد جائز ہے؟؟ فرمایا شاہ جی نے کہ وہ پیسہ ہم ٹوائلٹ وغیرہ پہ لگا دیں گے..
ایک امام صاحب جن کو ان کے طالب علمی کے دور میں یار لوگ پیار میں یا چھیڑ میں "مُفتی" کہتے تھے وہ آج تک اسی پہ "پکے" ہو گئے ہیں اور ان سے میں نے عرض کی کہ جناب موسیقی سُننا کیسا ہے؟ فرمانے لگے کہ کیا کرو گے سُن کے.. عرض کی جناب جواب دیں..فرمانے لگے کیا کرو گے سُن کے ... اور پھر باربار پوچھنے پہ وہی جواب ملا..
ایک نوجوان مولوی صاحب سے پوچھا کہ حضور شبِ برات کا ذکر نہ قرآن میں کہیں ملتا ہے نہ صحیح احادیث سے ؟؟ تو تپ گئے حضور کہ بحثی مت جایا کرو ہماری ماننی ہے اور اگر سُنی ہی ہو تو شب برات بھی ہے ...
ایک مسجد میں جلسہ تھا،مسجد کے اندر ہی ٹھنڈے پانی کا کولر تھا..پانی پینے گیا تو گلاس بھر کے کھڑے کھڑے پینے لگا..ایک سبز پگڑی والے مولوی صاحب انتہائی حقارت سے بجائے براہِ راست مجھ سے مخاطب ہونے کے کولر کے پاس کھڑے چاچا جی سے بولے کہ لوگ مسجد تو آ جاتے ہیں انھیں پانی پینے کا طریقہ ہی سکھا دیں.. میں نے ڈائریکٹ مولوی صاحب جو مخاطب کر کے کہا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میں کھڑے ہو کے پانی اسلئے پیتا ہوں کہ میں حضورِ اعلی کو کھڑے ہو کے پیتے دیکھا ہے اور بیٹھ کے بھی اسی لیے کہ حضوراعلی کو بیٹھ کے پیتے دیکھا ہے ..تو مولوی صاحب انتہائی جلال میں اٹھے جیسے طوفان اٹھتا ہے اور "پتا نہیں کون کون سی کتابیں پڑھتے ہیں لوگ" کہتے ہوئے چل دئیے...
معزرت تحریر طویل ہو گئی، مگر مختصر یہ کہ یہاں بھی مسجدیں ظاہری علما اور حقیقتاً کنوئیں کے مینڈکوں کے پاس ہی ہیں.. جب تک اللہ کا نام چلتا ہے (جو کہ قیامت تک چلناہے) یہ اس نام کو خوب بیچیں گے اور توندیں بھریں گے ...رہ گئے ہم تو ہم آج بھی ان سے جُھک کے ملتے ہیں اور کئی بار تو رکوع تک کو چلے جاتے ہیں .. ہم اپنی جہالت میں بہہ رہے ہیں اور وہ ہماری جہالت سے اپنے اپنے مفاد پورے کر رہے ہیں ...
بچوں کا رونا رونے والوں کو عقل کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنی عقل جو خدا نے سبھی کو دے رکھی ہے اسعتمال میں لانی ہو گی اور خدارا بچوں کو علم دیں،کھُلے دماغ دیں اور ان کو خوب سوچنے سمجھنے کا مواقع دیں.. قسم لے لو صاحبو ہمارے بچے ہم سے کہیں سیانے ہیں ... 

  

1 comment:

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...