Thursday, June 20, 2019

سُچی محبتوں کی سَچی کہانی (حصہ اوّل)

فون کی گھنٹی بجی، لفظ "ماں" نمودار ہوا تو جھٹ سے فون اٹھا لیا.. ماں کی آواز کانوں میں پڑی تو دل تک اتر گئی
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"
زندگی بھر ماں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا اور آج وہ مجھے بلا رہی تھی.. انکار تو کفر تھا.. "ماں میں آرہا ہوں"

اور ذہن کے پردے پہ ماضی کی فلم سی چلنے لگی.. جب ماں نے کہا تھا
"بڈھا تو یہاں سے چلا جا کبھی واپس مت آنا"
میں نے پوچھا "ماں، آپ کے لیے بھی نہیں"؟
ماں نے کہا "جب میں تجھے تیرے بچپن کے نام (بڈھا) سے پکاروں تو سمجھ لینا ماں کو تیری ضرورت ہے، مگر ان حالات میں یہاں سے چلا جا ہمیشہ کیلئے"...

دو خاندان، دو گاؤں اور دو دلوں کی یہ کہانی ہے.. کہانی سننے سے پہلے بوڑھے بلوچ کی ایک نصیحت جو اس نے مجھے کی اور کہا
"بیٹا آپ کی ایک خرابی کی سزا آئیندہ آنے والی تمھاری ساری نسلیں بھگتیں گی، کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ بات یاد رکھنا "...
بوڑھے بلوچ نے مجھے ایک کہانی سنائی تھی کہ ایک شہزادے کو کسی دشمن قبیلے کی لڑکی سے عشق ہوا تھا، دونوں ایک دوسرے کے پیار میں دیوانے ہوگئے تھے.. شادی کرنا ناممکن تھا تو شہزادے اور اس لڑکی نے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا.. اب شہزادے کو علاقے میں سب سے تیز رفتار اونٹ کی ضرورت تھی اگر کوئی پیچھا بھی کرے تو انہیں پکڑ نہ سکے.. اسی اونٹ کی تلاش اسے ایک شخص کے پاس لے گئی.. اس شخص نے کہا کہ اس سے تیز رفتار اونٹ آپ کو سینکڑوں کوس دور دور تک نہیں مل سکتا مگر اس نسل میں خامی ہے۔ شہزادے نے پوچھا کیا ؟ اس شخص نے کہا کہ اونٹ دوڑتے دوڑتے رک جاتا ہے، نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پھر بھاگنا شروع کرتا ہے..
جب شہزادے نے اونٹ کو خرید کر اس پر سواری کی تو اونٹ تیز رفتاری سے دوڑنے لگا، شہزادہ بہت خوش ہوا دوڑتے دوڑتے اچانک اونٹ رک کر بیٹھ گیا چند لمحوں کے کھڑا ہوا اور پھر دوڑنے لگا... اور شہزادے کا دماغ بھی دوڑنے لگا کہ ایک خامی نسل در نسل چلتی ہے....

میں اور شیرین، جو پاس والی گاؤں کی تھی، ہم نے بچپن ساتھ کھیلتے ہوئے گزارا اور مجھے بچپن سے ہی بتایا گیا تھا کہ شیرین آپ کے نام پر ہے ( منگیتر) ہے..
وقت اور حالات نے بچپن سے ہی ہمیں جدا کردیا.. میں تعلیم حاصل کرنے شہر چلا آیا اور شیرین پتہ نہیں کہاں تھی، کن حالات میں تھی.. کیسی تھی..
میں ہر طرح کے ہتھیار چلانے اور جوڈو کی ٹریننگ لے چکا تھا مگر مجھے ان چیزوں کے مقابلے میں میوزک اور فوٹو گرافی کا شوق زیادہ تھا.. پہاڑوں سے، صحرا اور پھر ساحل سمندر سے ایک محبت سی ہو گئی تھی... یونیورسٹی کا دوسرا سال تھا.. ایک دن کینٹین میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ چند لڑکیاں داخل ہوئیں .. اور ان میں سے کسی ایک لڑکی نے کو آواز دی " شیرین "

یہ نام میرے ساتھ اس وقت سے جڑا تھا جب میری عمر صرف 3 سال تھی .. ذہن میں پرچھائیاں ابھریں " بیٹا ، شیرین تیرے نام پر ہے "

میری نگاہ بے اختیار اسکی طرح گئی وہ میری خوابوں کی رانی، جو میری ہر سانس میں چلتی تھی، دل کی ہر دھڑکن میں دھڑکتی تھی، آج وہ سامنے کھڑی تھی اور میں صرف اسے دیکھتا ہی رہ گیا.. جیسے وہ کوئی دیوی ہو گر چادر (بلوچی چادر) میں سر کو چھپائے ہوئے اور ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ جیسے کوئی نو خیز کلی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کھل اٹھتی ہو.. مجھے اپنی طرف مبہوت دیکھ کر کہا
"مسٹر طبیعت تو ٹھیک ہے "
میں نے بلوچی میں کہا" تم شیرین ہو ناں، اماں گنج جان کی بیٹی "
وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی، کچھ لمحات بعد کہا
"پھر آپ کوئی اور نہیں 'یاہو' ہو"
بچپن سے وہ مجھے یاہو کہہ کر پکارتی تھی.. ہم دونوں کینٹین سے نکل کر ایک بینچ پر آکر بیٹھ گئے.. باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے دونوں خاندانوں میں دشمنی ہوگئی ہے، اب شاید ہم کبھی ایک نہیں ہونگے..
"ہم الگ تھے ہی کب" میں نے کہا تو وہ مسکرائی اور کہا اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے، جینا مرنا ساتھ ہی ہوگا..
میں تمھارے ساتھ ہوں.. ایک بلوچی بتل (ضرب مثل) ہے " نامرد کی بیوی کو لوگ اس سے چھین لیتے ہیں مگر مرد کی منگیتر کو نہیں"

اب صورتحال کو سمجھنے کیلئے میں گاؤں چلا آیا.. سب نے شادی کی مخالفت کی کہ ہم اس شادی سے راضی نہیں ہیں

اب کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ ہم بھاگ کر شادی کرلیں مگر مجھے اس بوڑھے بلوچ کی سنائی کہانی اور نصیحت یاد آگئی...
گاؤں کے حالات بہت کشیدہ تھے.. دو گاؤں کے بیچ سرحد بن چکی تھی، دشمن ملک کے سرحد...
بلوچ معاشرے میں منگیتر سے ملنا تو کجا اس کے علاقے میں جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا.. ماں سے بات کی تو اس نے کہا اپنے والد سے بات کرو۔ والد سے بات کی تو انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ "شیرین کو بھول جاؤ"

گاؤں سے مایوس ہوکر شہر چلا آیا اور پھر چند 'معززین' نے شیرین کے والد سے ملاقات کی.. کافی لمبی بحث و تکرار کے بعد، بلوچی کلچر کے مطابق شادی کی بات منظور تو ہو گئی، مگر اس شرط پہ کہ وہ کسی کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں دیں گے...
سو مجھے اپنی اور شیرین کی زندگی کی حفاظت دونوں خاندانوں سے خود کرنی تھی، سادہ سا نکاح ہوا اور میں اور شیرین اس سماج سے دور چلے آئے...

اور اب مجھے اتنے سالوں کے بعد اکیلے دوبارہ دشمنوں کے درمیان جانا تھا... اپنی ماں کیلئے....
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...