Monday, June 24, 2019

سُچی محبتوں کی سَچی کہانی.. (حصہ دوم)

ماں کی آواز ٹیلی فون سے سیدھی دل میں اتر گئی..
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"

اگلے دن ٹکٹ لے کر بلوچستان کیلئے روانہ ہوا.. جہاز میں بیٹھتے ہی خیالوں کا ایک ہجوم ذہن میں امڈ آیا، حال کا اپنا وجود ہی نہیں ہے۔ محفل میں حال تنہائی کو تلاش کرتا ہے اور تنہائی میں محفل کو یاد کرتا ہے۔

ایک بڑا گھر اور صحن تو جیسے کوئی کھیل کا میدان، گہما گہمی کا عالم مگر میں ان تمام چیزوں سے لاتعلق ہی رہتا تھا... میری دنیا میری مائیں تھیں..

بابا سائیں اپنے علاقے کے امیر شخص تھے.. میں نے کبھی انہیں عورتوں سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا.. روایت اور اصول کے بندے تھے.. ملازمین کو گھر کے فرد کی حثیت کا درجہ حاصل تھا، گھر کے کسی فرد کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ملازمین سے سخت زبان میں بات کریں..
میرے پیدا ہونے اور میری ماں کے گزر جانے کے بعد بابا نے دو شادیاں اور کیں.. مجھے جنم دینی والی ماں کو میں نے کبھی نہیں دیکھا... دو سوتیلی ماؤں ( سوتیلی کہتے ہوئی میری زبان کانپ رہی ہے ) نے مجھے پالا پوسا بڑا کیا دونوں آپس میں بچپن کی سہیلیوں کی طرح پیار کرتی ہیں.. اپنے بچوں سے زیادہ پیار اور عزت دی..
میں سب دوستوں کو فخر سے بتاتا تھا کہ میری دو مائیں ہیں.. دونوں مائیں بلوچ نہیں تھیں مگر مجھے یاد نہیں کبھی انہوں مجھ سے بلوچی کے علاوہ کبھی کسی اور زبان میں بات کی ہو... ہاں ایک ماں نے (جو پنجابی ہیں ) مجھے بلھے شاہ سے متعارف کروایا.. ہمیشہ اس کی شاعری پڑھ کر مجھے ترجمہ کرکے سناتی تھی اور دوسری ماں ( جو سندھ سے تعلق رکھتی ہے ) نے مجھے سندھی شاعری اور ادب سے ملوایا...
اور میوزک میں دلچسپی ان ماؤں کی بدولت آج تک قائم ہے... بلوچستان کی تاریخ کے بارے میں دونوں کی آشنائی کمال کی ہے.. مجھے ہمیشہ تحفے میں تاریخی اور شاعری کی کتابیں دیتی تھیں اور مجھ سے آج تک شاعری کی فرمائش کرتی ہیں وہ بھی گا کر... سُر اور لے میں ذرا سی غلطی پر ایک پیار بھری ڈانٹ ، اس ڈانٹ کیلئے میرا بے سرا گانا اور انکی ہنسی بھلائے نہیں بھولتے...

ماں لفظ میری زندگی کی جَڑ ہے.. میری طاقت میری تربیت اور میری خوشی کا مرکز صرف ماں ہے ... مجھے شاید ماں سے اتنی محبت نہیں جتنی میری ماؤں کو مجھ سے عشق ہیں، مجھ میں ان کی جان ہے.. ماں رحمت کا سمندر ہے...
ایک بار بچپن میں، میں نے کسی کو ماں کی گالی دی تو مائیں مجھ سے ناراض ہو گئیں.. پھر مجھے بلا کر ایک نصیحت کی
" بیٹا ماں صرف تمھاری نہیں ہے، مائیں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں، اگر اپنی ماں کی عزت کرتے ہو تو کوئی کمال نہیں ہے ، سب ماؤں کی عزت کرنا اصل بات ہے.. چاہے وہ انسان ہو یا بے زبان جاندار "
بڑی مشکل سے معافی ملی اور آج تک دوبارہ یہ غلطی نہیں کی.. ایک دفعہ شکار پر گیا تو شکار کرنے سے پہلے ماں کی بات یاد آگئی، شکار کئے بغیر واپس آیا اب صرف پہاڑوں پر پکنک منانے جاتا ہوں جانوروں کا شکار کرنے نہیں...

جب میں شہر پڑھنے کیلئے آیا تو دونوں مائیں باری لگا کے ہمیشہ میرے ساتھ رہتی تھیں کہ بڈھا کا خیال کون رکھے گا .. یہ میری مائیں نہیں میری سب سے اچھی دوست ، میرے استاد، میرے محافظ، میری کل کائنات ہیں...

مجھے کبھی پیسے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، صبح اٹھتا تو تکیہ کے نیچے پیسے پڑے ملتے تھے.. عید پر کپڑے جوتے ہمیشہ تیار ملتے تھے...
مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب میں نے اپنی پہلی کمائی ماں کی ہاتھ میں رکھی تو دونوں مائیں مجھ سے لپٹ کر دیر تک روتی رہی..
میں جب بھی کسی کھیل کے مقابلے میں حصہ لیتا تھا تو دونوں میں سے ایک ضرور میدان میں موجود ہوتی تھی .. مجھے گھر میں پڑھایا جب داخلے کیلئے پہلی دفعہ گیا تو مجھے کلاس ششم میں داخلے کا ٹیسٹ دینے کو کہا میں ٹیسٹ دیکرباہر آیا ماں نے ہیڈ ماسٹر کے کمرے مجھے بلایا اور میرا ماتھا چوما کر کہا "بڈھا مبارک ہو داخلہ ہوگیا "

میں نے کبھی اپنی کوئی پریشانی ماؤں سے بانٹی نہیں مگر ناجانے انہیں کیسے پتہ چل جاتا تھا.. وہ صرف میری مائیں نہیں بلکہ میرے تمام دوستوں کی مائیں تھیں... ہر جمعرات کو تمام دوستوں کا کھانا میرے گھر پہ ہوتا تھا.. ایک دفعہ ہم فائنل میچ ہار گئے، سب دل برداشتہ تھے ماں نے پوری ٹیم کو گھر بلاکر دعوت دی کھانا کھلایا اور کہا "بچوں ہار سے سبق حاصل کرو اور اسے اپنی کامیابی کا زینہ بناؤ"
جب بارہویں جماعت پاس کی مجھے پورے پاکستان کے ٹور کیلئے بھیجا، کہا :بڈھا جا گھوم کر آؤ" پورے ایک مہینہ میں نے پورا پاکستان گھوما.. ہرروز ماں کو خط لکھتا تھا.. جب واپس آیا تو ماں نے ایک بھی خط نہیں کھولا تھا، کہا :بڈھا اب تم خود پڑھ کر سناؤ " میں خط سنا رہا تھا اور دونوں ماؤں کی وہ 'واہ واہ اور ہائے ہائے' آج تک یاد ہے...

میری شیرین سے شادی پر دونوں ماؤں نے سب کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میرا ساتھ دیا..
شیرین تو جیسے انکی بیٹی بن گئی ہے.. میری بہنیں میری بیوی کی پکی سہیلیاں ہیں.. جب میں ملک چھوڑ کر جارہا تھا تو دونوں ماؤں نے اپنے آنسو چھپا کر مجھے حوصلہ دیا.. وہ جملہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا سکتا کہ "بڈھا، اگلے جنم میں ہم اپنی کوکھ سے تمہیں جنم دینا چاہتے ہیں"....

جہاز کے کراچی ائیرپورٹ پہ اترنے کی اطلاع نے خیالوں کے بادلوں سے باھر نکالا...

جب میں کراچی ائیر پورٹ پہنچا تو مائیں سامنے کھڑی تھیں... وہی شفقت وہی پیار.. وہی رحمت وہی جنت... میں نے جھک کر پاؤں چھوئے تو کہنے لگی "اب ہمارا بڈھا بڑا ہوگیا ہے "میں ہمیشہ ماؤں کے سامنے بچہ بن جاتا ہوں وہی بچپن کا بڈھا..

میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر اب بھی رات کو سوتا ہوں
ماں میں چھوٹا سا اِک بچہ
تیری یاد میں اب بھی روتا ہوں

اب آتے اس مسئلے کی طرف، جس نے میری ماؤں کو مجبور کیا مجھے واپس بلانے پر.. جب میں نے بابا سائیں اور خاندان سے بغاوت کرکے شیرین سے شادی کی تو بابا نے مجھے عاق کردیا تھا.. مگر ان کی وفات کے بعد جب وکیل نے ان کی وصیت اور دیگر کاغذات خاندان والوں کو دکھائے تو سب کو جائیداد اور پیسوں میں حصہ دینے کے بعد، اپنی جائیداد انہوں نے میرے نام کردی تھی... باقی میرے سگے بہن بھائی جو مجھ سے عمر میں کافی بڑے ہیں انکو اپنی زندگی میں حصہ دے دیا تھا سب اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی رہ رہے تھے کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا.. میں نے اپنے حصے کی زمینیں اپنی ماؤں اور بہنوں کے نام ٹرانسفر کردی تھیں.. مگر خاندان کے کچھ لوگ اس بات کے خلاف تھے اور انہوں نے میری ماؤں کو تنگ کرنا شروع کیا تھا...
خیر جب میں ماؤں کو لیکر گاؤں پہنچا تو ذہن میں یہ خیال رقص کرنے لگے کہ 'میں تو ایک باغی ہوں.. ظلم سے، جبر سے، سماج کے طبقاتی نظام سے، مذہب و زبان سے، رنگ و نسل اور ذات پات سے باغی ہوں، پھر کیوں یہ منجمد سی کیفیت مجھ پر طاری ہوجاتی ہے؟ کیوں اس کیفیت سے فرار ممکن نہیں؟ ذہن کی فضاء میں تب ہی ایک آواز گونجتی ہے

"ماں"

کتنے برس گزر گئے تھے.. لوگ بدل گئے تھے، رویے تبدیل ہوگئے تھے، اب اس صحن میں گہما گہمی نہیں تھی ایک عجیب خاموشی تھی اور جیسے میں کسی اجنبی جگہ پر آگیا ہوں.. کسی چیز میں اپنائیت نہیں تھی.. سب بدل گیا تھا، نہیں بدلے تو دشمنی کی شدت، انتقام کی آگ نہیں بدلے.. وہی روایتوں کی سختی، وہی بندشیں جو سماج کی گھٹن کو قائم رکھے ہوئے ہیں ، جن میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو ملا جن سے تنگ آ کر میں ملک چھوڑ گیا تھا...
خیر سب کام بخوبی نمٹانے کے بعد ایک بار پھر واپسی کا سفر جہاں میری زندگی میری منتظر تھی.. تمام نفرتوں سے دور مگر ایک خلاء جو کبھی پر نہ ہو سکے کہ مائیں ایک بار پھر سے میری منتظر رہیں گی...
شاید ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجے گی اور ماں کی آواز ٹیلی فون سے سیدھی دل میں اتر جائے گی
" بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے "
...........................................

( بڈھا نے جو کہانی جیسی سُنائی ، سُنا دی گئی.. عاصی )

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...