میں تھک چکا ہوں
اے میری عمرِ رواں
تیرے قدموں کے نشاں
ناپتے ناپتے
گر چکا ہوں
اپنے ہی سائے پہ اوندھے منہ
اپنے ہی بوجھ تلے
ادھڑی ہوئی چند سانسیں
جو ہیں باقی
انہیں کھینچ رہا ہوں بدن سے
ایسے جیسے
اپنی صلیب کندھے پہ اٹھائے یسوع
چھوڑ رہے ہوں بستی اپنی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
ٹھنڈی آگ
"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...
-
اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی...
-
سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...
-
صحن کے ایک کونے میں اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی. مجھے سب پھول ایک سے لگتے تھے، ان کے مختلف نام مجھے یاد نہیں رہتے تھے، اماں نے جانے...
No comments:
Post a Comment