"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. یہاں کی گرمی تو دوزخ کا ایک چھوٹا سا دہکتا ہوا کوئلہ ہے۔ دوزخ سے ڈرو مومنو، اللہ سے ڈرو، اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے".... مولوی صاحب کی جمعے کی تقریر مسجد کے سپیکر سے برس رہی تھی اور صاعقہ اس شدید گرمی میں چھپ چھپا کر ناظم سے ملنے قبرستان کے پچھواڑے بنے ایک ڈیرے کی دیوار سے لگی ہانپ رہی تھی۔ ناظم دیوار سے لگا اس طرف آ رہا تھا۔ پسینے کی لہریں کمر پر بہہ رہی تھیں اور سامنے گردن سے نیچے دو پہاڑوں کے بیچ پسینے کی آبشار رواں تھی۔ ناظم نے آتے ہی اسے کھینچ کے لگے سے لگایا اور پھر دو جسموں کے دوزخ مزید دہکنے لگے ناظم مشرقی محلے کا تھا اور صاعقہ ڈوبتے سورج کے محلے میں رہتی تھی۔ جانے کب گلی میں آتے جاتے آنکھیں لڑیں، اور کم بخت ایسی لڑیں کہ بات ان وعدوں تک جا پہنچی جو قَسموں سے بھاری ہوتے ہیں۔ ملاقاتوں کے لیے کبھی جمعے کا انتظار کیا جاتا کہ دونوں کے اباؤں سمیت سارے مرد مسجد جائیں تو چھپ چھپا وہ اپنی محبت کی جماعت کھڑی کریں، کبھی کسی دوکان پر سودا لیتے، کبھ...
یہ جہانِ کُن، جہانِ رنگ و بُو ہے یہاں پہ سحر لہو پی کے اُگتی ہے یہاں سورج خون تھوکتا ہے سارا دن یہاں شام کے سر پر لہو کی اوڑھنی ہے یہاں پہ رات کی رانی قبروں پہ کھلتی ہے یہاں کے پھول پرانی لاش کی بدبو اگلتے ہیں ہم اس جہانِ کُن کے کس کربلا میں رہتے ہیں یہاں کرب و اَلم کے وہ طوفان چلتے ہیں یہاں جبریل بھی آئے تو اس کے پر جلتے ہیں یہاں پر آسماں سے بموں کے من و سلوٰی اترتے ہیں یہاں پر گولیوں کی بارشیں برستی ہیں تو زمیں سے ننھے بچوں کی لاشیں نکلتی ہیں یہاں آہ و افغاں، یہاں دعائیں رائیگانی ہیں یہاں کُن کی صدا کچھ نہیں، جھوٹی کہانی ہے یہ جہانِ فیکون ہے یہاں بس خون ہی خون ہے۔ ------------------------------
سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا خیال ہے بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے ہمیں سائیکل چلانے اور اس کے علاج سے کوئی لینا دینا تھا نہیں سو گھر کا لوہے کا گیٹ ملازم نے کھولا اور ہم سب اندر چلے گئے. ابو سیدھے بیٹھک میں چلے گئے جہاں پھوپھا اور دوسرے مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے، ہم بچے لوگ امی کے ساتھ صحن میں آ گئے، جہاں پھپھو کے بچے، دوسرے کزنز کے ہمراہ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ادھر ادھر کود رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر ایک گانا چل رہا تھا دل کی حالت کس کو بتائیں ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل اور برآمدے کے ماربل کے ستون سے ایک چہرہ ٹکا ہوا تھا، درمیان میں سے نکلی مانگ سے کچھ بال آوارہ ہو کے گالوں پر جھولا جھول رہے تھے اور ہونٹ "ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل" گنگنا رہے تھے لمحے ٹھہر جاتے ہیں، وقت نہیں رُکتا. پھپھو کے بیٹے کی شادی پر کوئی ہفتہ بھر وہاں رہے اور وہ سات دن تو نہیں رکے، ان سات دنوں کے کتنے ہی لمحات دل میں اترے، دماغ میں بسے اور آنکھوں کا طواف کرتے رہ...
Comments
Post a Comment