Friday, April 14, 2023

چالیس اور چار قدم

وہ گھڑی آ گئی تھی جب کلائی پہ بندھی گھڑی اور دل کی دوڑ میں میل جول نہیں رہا تھا. دل کے پیروں میں گھڑی کی سوئیاں چبھ گئی تھیں، وہ دوڑ رہا تھا اور میرے سامنے پچھلے چالیس منٹ میں کئی میٹرو رکنے کے بعد دوڑ لگا چکی تھیں اور میں میٹرو سٹیشن پہ گوستاو ویگیلاند کے کسی مجسمے کی طرح چپ چاپ کھڑا تھا

اُس دن کھانا کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں چالیس قدم چلنے کی سنت پوری کی جا رہی تھی. ابا اسے نبی کی سنت مانتے تھے اور میں اِسے ابا کی سنت. میں ابا سے دو قدم پیچھے تھا اور ابا دونوں ہاتھ پیچھے کو باندھے چل رہے تھے
"ابا، آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے"
ابا یونہی چلتے چلتے ہی بولے کہ کی گل کرنی آ
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں" ابا نے چلتے ہوئے مجھے مڑ کے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا کے بولے "اچھااااا، ایہہ تے چنگی گل اے، کوئی رشتہ لبھنے آں" اور یہی سارا مسئلہ تھا کہ جو انہوں نے لبھنا یعنی ڈھونڈنا تھا، وہ میں چار سال پہلے ڈھونڈ چکا تھا
میری ہتھیلیاں پسینے میں گویا نہا رہی تھیں اور دل چھاتی کو جیسے دونوں ہاتھوں سے پِیٹ رہا تھا. رنگ چونکہ پہلے ہی سیاہی مائل تھا سو سرخ تو نہیں ہوا، مزید کالا ضرور ہو گیا تھا
"ابا، میں ایک لڑکی کو جانتا ہوں، اسی سے شادی کرنی ہے" یہ دو جملے میں نے کیسے کہے، مجھے نہیں معلوم. ابا وہ خدا تھے کہ جن کے سامنے دعا مانگتے بھی ڈر لگتا تھا. ابا وہ خدا تھے کہ جنہیں اپنے سامنے ہر دم جھکے سر ہی قبول تھے. مجھے لگ رہا تھا کہ زمین گھومتے گھومتے اک دم رک جائے گی، آسمان اپنا سینہ پھاڑ کے مجھ پر سورج کی قے کر دے گا اور میں اگلی نسلوں کو کسی پومپـے کی راکھ میں جھلسا ہوا ملوں گا

مگر نہ زمین رکی نہ آسمان کو کچھ متلی محسوس ہوئی اور نہ ہی خدا رکے، مطلب نہ ہی ابا رکے
"کون اے او؟ تینوں کتھوں لبھی؟ " ابا کے لہجے میں کچھ خاص فرق بھی محسوس نہیں ہوا جیسے میں نے ان سے اپنی پسند کی شادی نہیں بلکہ رات کے کھانے کا مینیو ڈسکس کیا ہو
"ہم ایک ہی سکول میں جاتے تھے، وہیں ملی. آپ شاید جانتے ہوں، عبید اللہ مغل، ان کی بیٹی ہے" یہ کہتے کہتے سانس چالیس سیڑھیاں چڑھ گئی تھی
"ہمممم..اچھااا اچھاااااا او منظور مغل دے خاندان دی اے.. ہممم.. او بندے نئیں ٹھیک، اونہاں دے منڈے گینگ شینگ اچ نیں، تینوں کدرے مار مور دین گے" ابا کے ابھی چالیس قدم پورے نہیں ہوئے تھے یا اس بار قدموں کی گنتی ضروری نہیں رہی تھی
"پر ابا اُن کی منظور وغیرہ سے کوئی خاص سلام دعا نہیں ہے، وہ ایسے لوگ نہیں ہیں" ابا رکے مجھے دیکھا اور جا کے صوفے پہ بیٹھ گئے اور ٹی وی کا کنٹرول اٹھا کے جیو نیوز آن کیا اور خبروں میں مگن ہو گئے
جیسے تیسے رات گزری، اگلا دن کام پہ گزرا اور شام کو گھر پہ ساتھ کھانا کھایا اور چالیس قدم چلنے کے بعد سب صوفوں پہ بیٹھ گئے. ابا چپ تھے اور جب بولے تو میری ریڑھ کی ہڈی پہ برف جم گئی
"تینوں ذرا شرم نئیں آئی کہ پیو دے سامنے اپنے ویاہ دی گل کر دتی توں؟ تیری اینہی ہمت ہو کیویں گئی، ایہہ دس؟ بیغرت منہ پھاڑ کے کہندا اخے مینوں کڑی پسند اے، ہے بیغرتا، کھوتے دیا پترا" صوفہ تھا کہ دلدل، میں دھنستا جا رہا تھا، سر کے بالوں میں چیونٹیاں میراتھون میں حصہ لے چکی تھیں. جسم کا سارا خون جیسے صوفے پہ لٹکتی ٹانگوں میں آ رکا تھا
" پتر، اوتھے تے تیرا ویاہ نئیں ہو سکدا، ایہہ تے بھل جا، ہن میں تیرا ویاہ کراں گا پاکستان، اپنی مرضی نال، ہے خبیث نوں ذرا شرم نئیں آئی" گھر میں مکمل خاموشی تھی، میرے کان سوں سوں کر رہے تھے اور میں خدا کے آگے سر اٹھانے اور اس پہ مستزاد، اپنے دل کی بات کہہ دینے کا گناہ گار ہو چکا تھا. میرا یہ خدا اونٹ کی طرح بات دل میں رکھتا تھا، کبھی بھولتا نہیں تھا اور میں سجدہ ریزی کے واضح حکم سے روگردانی کر چکا تھا. راندہ درگاہ بلکہ راندہ دل و نگاہ ہو چکا تھا
پھر ابا نے اگلے دو چار دنوں میں پاکستان میں ایک رشتہ ڈھونڈا اور پاکستان، اس سے رشتہ پکا کرنے چلے گئے. میں یہاں رو رہا تھا ادھر ابا رشتہ پکا ہونے کی مٹھائیاں بانٹ رہے تھے. ایسا پتھر دل تو کوئی خدا ہی ہو سکتا ہے

ابا ٹیلیفون پہ وہیں سے نکاح پڑھوانا چاہتے تھے، میں گھر میں سب کے سامنے رو پیٹ چکا تھا کہ میں نہیں کروں گا، فون آئے گا بھی تو میں فون پہ رشتہ کو نہ کر دوں گا. اماں سمیت سب گھر والے الگ رو رہے تھے کہ چپ کر کے مان لے ابا کی بات، کیوں ہماری زندگیاں مزید مصیبت اور تکلیفوں میں ڈالنا چاہتا ہے. بھول جا محبت کو. کیوں اپنی ایک محبت کے لیے اتنے خود غرض ہو جاؤ گے کہ ہم سب اور خاص طور پر اماں کو ہی بھول جاؤ گے! کیوں اماں کی اذیت زدہ زندگی میں مزید اذیتوں، طعنوں اور گالیوں کے زھر بھر رہے ہو. یہ پکڑو فون، دوسری طرف نکاح خواں ہے، کر دو ہاں! اور میں نے ہاں کر دی

یہ فیصلے کی گھڑی تھی اور میں بری طرح ہارا تھا. دوسروں کے آنسوؤں میں بہہ کے اُس پار جا نکلا جہاں میں خود کو پہچان ہی نہیں پا رہا تھا. کچھ دن گزرے اور پھر میں نے اپنی محبت کے گھر والوں کی شدید منت سماجت کر کے اپنی محبت کی انگلی میں اپنا رشتہ باندھا اور نکاح کر کے اپنا نام اس کے نام کے ساتھ جوڑ دیا. معاملہ یوں ہوا کہ میں جلد از جلد اپنے گھر والوں کو اس نکاح کے متعلق بتاؤں گا اور دھوم دھام سے محبت بیاہ کے گھر لے جاؤں گا. یہ بات میرے تین دوستوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھی، دو دوست نکاح کے گواہ تھے اور تیسرے دوست نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے  خفیہ نکاح کی خبر کچھ دنوں میں ابا کو دے دی

اس دن میں کام سے چھٹی کے بعد گھر جانے سے پہلے ایک بازار میں گھوم رہا تھا جب بڑے بھائی کا فون آیا کہ جلدی گھر آؤ، ابا نے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے. میں نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے ، تو اس نے کہا کہ تم بس جلدی سے گھر پہنچو. میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نکاح کی خبر ابا تک پہنچ گئی ہے. میں نے گھر کی طرف جانے والی میٹرو پکڑی اور سیٹ پہ بیٹھ گیا. تبھی بھائی کا میسج آیا کہ تم نے نکاح کر لیا ہے؟ ابا کو انضمام نے بتایا ہے. میسج پڑھ کے جی متلانے لگا. گھر کے سٹاپ سے دو سٹاپ پہلے اتر گیا
وہ گھڑی آ گئی تھی جب کلائی پہ بندھی گھڑی اور دل کی دوڑ میں میل جول نہیں رہا تھا. میٹرو آ رہی تھیں جا رہی تھیں، لوگ اتر رہے تھے بیٹھ رہے تھے اور میں چالیس منٹ سے وہیں کھڑا تھا. فیصلے کی گھڑی دوسری بار آئی تھی اور پہلی گھڑی جب جذبات کے ساتھ دوڑی تھی تو میں ہانپ گیا تھا. اُس جذبات کی گھڑی کے ساتھ چالیس قدم چلنے کی سنت نے مجھے محبت کا  کافر بنا دیا تھا. اس بار جذبات کے بہاؤ میں بہنے سے پہلے ہی ان جذبات سے منہ موڑنے کی تلخ سنت دریافت کرنے کی گھڑی آ گئی تھی. میٹرو سٹیشن پہ دونوں میٹرو، ایک گھر کی طرف جاتی اور دوسری گھر سے دور جاتی، آن رکی تھیں. اس گھڑی میں نے گھر کی طرف جاتی میٹرو پہ دھندلی نظر ڈالی اور دوسری میٹرو کی طرف چار قدم بڑھا دئیے 

No comments:

Post a Comment

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...