Wednesday, July 12, 2023

پرانے، نئے دھوکے

‏وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس کے لیے ناممکن نہ تھا کچھ بھی
کُن کہتا تھا سو ہو جاتا تھا
جو چاہتا تھا وہ ہو جاتا تھا
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس کے جاہ و جلال کے آگے
یہ سورج، چاند، مشتری، عطارد
یہ زہرہ، یہ زحل یہ مریخ ندارد
جس کی چلی چال کے آگے
سارے شطرنج باز بـے جاں
دو جہاں، لا مکاں بـے نشاں
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس نے کہف میں دھوپ بھی نہ گھسنے دی
جس نے ایک کتے کی عمر بھی نہ گزرنے دی
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
وہ کہاں ہے؟ وہ کہیں نہیں ملنا
وہ بھی قصہ ہے ایک گزرا ہوا
مگر یہ نیا خدا کسی کام کا نہیں
کسی محمد کا نہیں، کسی رام کا نہیں
اسے صلیب سے نہیں مطلب
وہ کسی اسلام کا نہیں
وہ کسی کی بھی نہیں سنتا، سب دعائیں بیکار ہیں
کسی کو گنتی میں نہیں گِنتا، سفارشیں بیکار ہیں
آہیں، سسکیاں، مناجتیں، سب فریادیں بیکار ہیں 
یہ نیا خدا کسی کا نہیں
بھوک دیتا ہے، ننگ دیتا ہے
سر دیتا ہے تو سَنگ دیتا ہے
خواب دے کے پھوڑتا ہے آنکھیں
پھول مانگو تو جنگ دیتا ہے
مرہم دیتا ہے زخم سے پہلے
زخم کے بعد مرہم چھین لیتا ہے
اک دن دیتا ہے کسی کو سب کچھ
سب سے سب ایک دَم چھین لیتا ہے
آسماں پر کہیں نہیں ملا اب تک
زمین ساری جھاڑ دیکھی یے
سارے سجدے ہیں کالی کوٹھڑی کو
کالی کوٹھڑی اُجاڑ دیکھی ہے
کچھ نہیں ہے، فریب ہیں سارے
ہم جو خود سے بیزار ہیں پیارے
تیرے طلسم میں کھو نہیں سکتے
ہم اِس خدا کے تو ہو نہیں سکتے

No comments:

Post a Comment

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...