Wednesday, May 29, 2019

سَچی راکھ

اس کی ایک بات سے موت کی سی چُپ سارے میں پھیل گئی..
سردیوں کی رات تھی ، کمرے کے بیچوں بیچ انگیٹھی جل رہی تھی، ماسٹر لطیف لحاف میں گھسے بیٹھے تھے اور شاہدہ بی بی کی چھیلی مونگ پھلیاں کھا رہے تھے.. جب ان کے اکلوتے بیٹے احد لطیف نے چارپائی سے کھڑے ہو کے، سر جھکا کے یہ بات کہی... احد کی بات ختم ہو چکی تو بھی اس نے آنکھیں نہ اٹھائیں، ورنہ وہ موت کی سی چپ میں اماں ابا کے مر جانے کا سا منظر بھی دیکھ لیتا.. اَدھ چھلی مونگ پھلی اس کی ماں کی انگلیوں کے بیچ میں تھی اور ماسٹر لطیف کا منہ مونگ پھلی چباتے جہاں تھا وہیں ساکت ہو چکا تھا..
احد کمرے سے جا چکا تھا مگر کمرے کا منظر وہیں تھا.. ماسٹر صاحب کے دماغ پہ بلڈوزر چل رہے تھے..انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی ساری پڑھائی کچرے کا ڈھیر بنی پڑی ہے.. ان کی سکول اور تعلیم کے لیے کی گئی ساری خدمات جلتے ہوئے تندور میں راکھ ہو چکی ہیں.. ان کی تہجد، پانچ وقت کی نمازیں ان کا ماتھا پھوڑ رہی ہیں... ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت، گلی کے لونڈوں کے پیروں کی ٹھوکروں میں فٹ بال کی طرح ادھر سے ادھر لڑھک رہی ہے... وہ انھیں چند لمحوں میں مر بھی چکے تھے اور خود کو بھرے پرے حشر والے دن خدا کے آگے سر اپنے پیروں پہ ٹکائے شرمندہ کھڑے محسوس کر رہے تھے... ان کا ایمان تھا کہ قیامت کے بعد ابدی زندگی ہے مگر وہ خدا کے سامنے خود کو پھر سے مرا ہوا محسوس کر رہے تھے... مونگ پھلی کے دانے کی کڑواہٹ معدے تک محسوس ہو رہی تھی...
احد کی اماں کے دوپٹے نے جیسے آگ پکڑ لی تھی.. آنکھوں سے گرتے خاموش لگا تار آنسو چھاتی بھگو رہے تھے اور وہ واحد اولاد کو اسی چھاتی سے پلائے گئے دودھ پہ شرمندہ ہو رہی تھیں.. اپنی کوکھ کو کوس رہی تھیں کہ جب اتنے سال ہری نہ ہوئی تھی تو کاش ساری عمر اجڑی ہی رہتی... کوکھ کو احد کی قبر کہتے ہوئے وہ چیخ کے رونے لگیں تو کمرے کا ساکت منظر بدلا... وہ دونوں ہاتھوں سے چھاتی پِیٹ رہی تھیں اور ماسٹر لطیف سر گھٹنوں میں دے کے بیٹھ گئے..

وقت گزرا اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھتے رہے... ان کی آنکھوں کی باتیں ہو رہی تھیں، ماسٹر صاحب کا چہرہ پتھر ہو چکا تھا اور شاہدہ بی بی کے منہ پہ موت کی پیلاہٹ تھی... ایک لفظ بھی دونوں کے منہ سے نہ نکلا.. جو سازش ہوئی آنکھوں میں ہوئی، کوئی ثبوت نہیں تھا... ماسٹر لطیف نے لیٹ کے منہ تک رضائی اوڑھ لی اور شاہدہ بی بی ٹانگیں گھسیٹتی رسوئی تک گئیں اور مٹی کے تیل کا کنستر اٹھایا اور جلتی انگیٹھی پہ انڈیل دیا...
آگ تھی کہ جلتا سورج گرا تھا اس گھر پہ... اماں ابا کے کمرے کو لپکتا احد بھی شعلوں کی لپیٹ میں جل چکا تھا...
مذہب بدلنے کی بات ہی ایسی تھی کہ سارا گھر موت کی چپ اور اپنے مذہب کی سچائی کی آگ میں راکھ ہو چکا تھا...

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...