Saturday, July 20, 2019

آپ بیتی

کہتے ہیں جب بِن ماں کی دھرتی نے جنم لیا تھا تو بلک بلک کے روئی تھی... روتے روتے آدھا جسم آنسوؤں میں ڈبو دیا تھا .. کبھی بادل کی تھپکیاں اسے بہلاتی رہیں، کہیں سورج اپنی گرم بانہوں میں سمیٹے اسے کہانیاں سناتا رہا... کبھی چاند نے اپنی ٹھنڈی آہوں سے شاعری چھلکائی اور کہیں ہواؤں نے اپنی تانوں سے رقص سکھایا...

پھر اس دھرتی پہ جوبن رُت آئی.. بدن نے نئے خال و خد ابھارے... جوبن رُت کا اک اپنا حسن ہوتا ہے جو خوبرو نین نقش کا مرہون منت نہیں ہوتا... وہی سورج، بادل ،چاند ہوائیں بیگانے لگنے لگے .. کبھی بادل کے بوسوں سے سمٹ جاتی، کہیں سورج کے جلتے جذبات سے دہک جاتی.. کہیں ہوائیں قبا اڑانے لگتیں تو کبھی چاند کی چپ شرارتوں سے اترتی چڑھتی دھڑکنیں سنبھالنے لگتی...

کہتے ہیں کہ دھرتی کے بالوں میں جب پہلی سفیدی اتری تو وہ اس نے سرخ رنگ سے چھپانے کی کوشش کی... پھر سارے بال سفید ہونے لگے اور دھرتی نے اپنی جاتی جوانی کو خون جیسے گاڑھے سرخ رنگ سے رنگنا شروع کر دیا... اور یہ رنگ دھرتی کو راس نہ آیا... کبھی سمندر اٹھتا اور منہ میں پانی بھر کے دھرتی کے بالوں کا رنگ مٹانے کی کوشش کرتا، کبھی بادل اڑتے اڑتے اپنی سفید برق سے سرخی ختم کرنے آ جاتے...

دھرتی کی عمر ڈھلی اور ڈھلتی عمر نے دھرتی کے بوڑھے چہرے پہ ہزار صدیوں کی تھکان سجا دی ... دھرتی کی آنکھیں اندر دھنس رہی ہیں ... آنکھوں میں گزرے وقتوں کی دھول نے سارے رنگ اڑا دئیے ہیں ... بالوں سے نُچڑتے سرخ رنگ نے سارا بدن لہو رنگ کر دیا ہے.. ہزار صدیوں کی مسلسل مسافت سے سانس بھی کھینچ کے نکلتی ہے، چہرے کی جھریاں آپس میں الجھی ہوئی ہیں اور جسم پہ جیسے بیوگی کی سفید چادر اوڑھ رکھی ہے...

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...