Monday, July 29, 2019

باجی کا یار

"لو آ گیا میری بیٹی کو بگاڑنے والا"
میں جیسے ہی اماں ابا کے ہاں پہنچا تو باجی صالحہ نے میرے بال پیار سے بگاڑتے ہوئے گویا اعلان سا کیا..
زرتشہ دوڑتی ہوئی آئی اور مجھ سے ایسے ہی چپک گئی جیسے وہ بچپن سے چپکتی آئی تھی..
"ماموں یارررر، آدھے کالے آدھے سفید بالوں میں کیا ہیرو لگتے ہیں آپ"
میں نے قہقہہ لگایا تو میرا سامنے کا آدھا ٹوٹا دانت اور نمایاں ہو گیا... میں نے زرتشہ کا ناک کھینچا اور اندر داخل ہو گیا..
تب ہی فخر بھائی بولے
"صالحہ، زرتشہ کو کوئی تمیز بھی سکھاؤ،بچی نہیں ہے وہ اب، سولہ سال کی ہو چکی ہے اور کیسے منہ پھاڑ کے بشر کو 'یار' کہہ رہی ہے... "
اور باجی ہمیشہ کی طرح اَن سنی کر کے پکوڑے پلیٹوں میں ڈالنے لگیں اور میں اکیس سال پیچھے چلا گیا...

"بشر، یہ رقعہ عمران کو دے آؤ گے ناں، میرے یار نہیں ہو... واپس آؤ گے ناں تو تازی لسی بنا کے پلاؤں گی اپنے بھائی کو"... کچھ لسی کا لالچ اور کچھ باجی کی محبت، میں رقعہ دینے چلا گیا...

باجی صالحہ، تین بڑے بھائیوں کے بعد تھیں اور میں باجی کے پانچ سال بعد... بھائیوں کے مقابلے میں، میں باجی کے زیادہ قریب تھا... گاؤں میں بچیوں کا مڈل سکول تھا سو باجی کو آٹھویں کے بعد گھر ہی بٹھا دیا گیا تھا... خواتین ڈائجسٹ، شعاع اور کرن ڈائجسٹوں سے باجی صالحہ کی بدولت کی علیک سلیک ہوئی..

عمران بھائی، ہمارے ابا کے خاندان سے ہی تھے، ہمارے ہی گاؤں کے جامع مسجد والے محلے میں رہتے تھے.. والی بال کے شوقین تھے سو ہم بھی تھے...

میں آٹھویں میں تھا جب باجی صالحہ کا پہلا رقعہ لے کے پہنچا اور عمران بھائی کی طرف سے سرگزشت ڈائجسٹ واپس لے آیا... شادی اور غمی میں، کسی کی برسی یا محرم و میلاد کے ختم وغیرہ میں اکثر باجی اور عمران بھائی کبھی دور دور سے اور کبھی میرے حفاظتی انتظامات کے بعد قریب سے مل لیتے تھے..

ایک بار تایا کے چالیسویں پہ چھت والے کمرے میں ملاقات کر رہے تھے اور میں دروازے کے باھر کھڑا تھا کہ نیچے سے ماموں رشید اوپر آ گئے... باجی کو دروازے کے پیچھے چھپانے کے بعد میں دروازے کے آگے بیٹھ گیا اور عمران بھائی سے والی بال کے ٹورنامنٹ کی باتیں کرنے لگا... ماموں غصے میں آ گئے کہ نیچے لوگ آئے بیٹھے ہیں تم دونوں یہاں والی بال کھیل رہے ہو... سو دو چار گالیاں دے کے ماموں نیچے چلے گئے تب جا کے کہیں میں دروازے کے آگے سے اٹھا...

جانے کیسے میرے ہم جماعت اور پھپھو زاد کبیر کو یہ بات پتا چل گئی کہ میں باجی کے رقعے لے کے جاتا ہوں.. اس نے یہ بات سارے سکول میں پھیلا دی تب میں دسویں میں تھا... میں پہلے ہی بہت لیا دیا رہتا تھا اب سب مجھے دیکھتے تو "باجی کا یار، باجی کا یار" کے نعرے لگانے لگتے...
یہ بات سکول سے گاؤں میں پھیلی تو عمران بھائی کے گھر والے رشتہ لے کے آ گئے... ابا نے پہلے تو انکار کر دیا... مگر جب گاؤں میں پھیلے "باجی کا یار" والے نعرے ابا تک پہنچے تو پہلے تو میں ابا کے جوتوں، بھائی کے تھپیڑوں اور اماں کی بددعاؤں کے لگے زخم سہلاتا رہا پھر باجی کے ماتھے پہ پڑے نِیل کو میک اپ سے چھپاتا رہا...

خاندان کے بڑوں نے کافی سمجھایا بجھایا تو ابا بالآخر مان گئے اور باجی صالحہ اور عمران بھائی کی شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی... شادی پہ دولہا دلہن پہ پیسے لٹانے کے لیے ابا نے مجھے دس روپے کے بوٹوں کا ایک بنڈل دیا جس پہ موٹی پِن لگی تھی.. جلدی میں دانتوں سے پِن نکالتے ہوئے آدھا دانت تڑوا لیا مگر باجی صالحہ کی خوشی میں "باجی کا یار" اتنا خوش تھا کہ آدھا دانت ٹوٹنے کی پرواہ بھی نہ کی...

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...