Sunday, November 17, 2019

کہ تماشا کہیں جسے

یہ شخص، یہ میرے سامنے تَن کے کھڑا یہ شخص، اس چھے فٹ کے 'بونے' شخص نے میری زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے.
نہیں تھا میں ایسا، جیسا مجھے بنا دیا ہے اس نے. ایک عام سے ، اَدھ پڑھے والدین کے گھر میں، درمیانے کسی نمبر پہ پیدا ہوئے کو کچھ بھی خاص نہیں ملا تھا ،کسی انقلابی کی اذاں نہ کسی باغی کی گھٹی. نہ گھر میں علم و ادب کے حوالے شیلف سے باھر ابل رہے تھے نہ گھر کی محفلوں میں علم و فضل کے نئے جہان تراشے جاتے تھے. کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس عذاب تک لے آتا جہاں یہ شخص مجھے لے آیا ہے.
مجھے نہیں یاد کب اس چھے فٹ کے بونے شخص سے پہلی بار سامنا ہوا تھا یا کب یہ خبیث مری زندگی کے دائرے میں گھسا تھا اور ایسا گھسا کہ سارا چکر ہی الٹا دیا. 
جانے کیسا خناس بھرا ہے اس کے دماغ میں، جانے کس سانپ کا ڈسا ہے کہ ایسے ایسے زہریلے خیالات و سوالات سے کاٹتا ہے کہ سامنے والا پانی بھی نہ مانگ سکے.
اس نے میرا قتل کیا ہے، ہاں اس شخص کے لمبے ہاتھوں پہ میرا خون ابھی تک تازہ ہے. 
اس نے میرے ایمان کا قتل کیا ہے. اس باتوں کے سوداگر نے پہلے میری چھوٹی سی کائنات کو لامحدود کر دیا اور پھر بـے انتہا خدا کو بـے بس کر کے میرے سامنے لا کھڑا کیا. میرے پرخچے اڑا دئیـے اس شخص نے. کیسا اونچا سفید بـے داغ مینار تھا میرے اندر، اب اس کے ملبـے پہ بیٹھا سگریٹ پھونکتا ہے یہ شخص.
جی میں آتا ہے کہ اس شخص کا منہ نوچ لوں میں، یہ چیختا ہے، چلاتا ہے. ان دیواروں کے، جن کے کان ہوتے ہیں، کانوں کے پردے پھاڑتا ہے یہ شخص. یہ خون تھوکتا شخص، یہ چیختا شخص، کاش اس کی زبان کھینچ لے کوئی.
میں جو رشتوں کے گجرے بنا کے رکھتا تھا، اس شخص نے ان پھولوں میں کانٹے پرو دئیـے ہیں. میں جو شعروں اور گیتوں میں محبتوں کے سمندر کھوجتا رہتا تھا، اس شخص نے اس سمندر کو گلاس میں بھرا اور گھٹ گھٹ پی کے مسکراتے ہوئے خالی گلاس میرے منہ پہ مار گیا ہے. دل تو چاہتا ہے کہ اس خالی گلاس کی کرچیاں لوں اور اس شخص کے گلا کاٹ دوں.
میں جو اپنے بِھیتر یادوں کے، گزشتہ تعلق کے، محبت کے قبرستان آباد کیے بیٹھا تھا، جہاں پہ اگتے سبزے کو ہر روز برابر کاٹتا تھا، ہر روز نئی کھلتی کونپلوں کو چھوتا تھا، پرانے ہوتے پھولوں کو دفنا دیتا تھا، جہاں میرے لفظوں سے سجے کتبـے سر اٹھائے مان سے کھڑے رہتے تھے، اس کمینے شخص نے اس قبروں پہ ننگا ناچ کیا ہے. اس نے پھولوں کے رنگ کالے کر دئیـے ہیں. اس نے سر اٹھائے ان کتبوں پہ مُوتا ہے.
یہ شخص، اس کو خوشبو لگا کے کیچڑ میں گھستے اور پھر اسی کیچڑ سے باھر آ کے دھمالیں ڈالتے میں نے خود دیکھا ہے. 
یہ شخص، یہ میرے سامنے کھڑا یہ شخص، یہ دوغلا یہ 'سائیکو' شخص.......... 
کہاں ہے چھری، یہ.. یہ...  
یہ اس چھے فٹ کے شخص کی ٹانگ پہ چھے فٹ لمبا اور ایک انچ گہرا گھاؤ دیا ہے. اسے تڑپا تڑپا کے ماروں گا میں. 

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...