Monday, November 04, 2019

پتھروں کی ذات

باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی.

"کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے" 

اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں

"مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ "

بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی بار بار مہریں لگا رہی تھی... جب میرے منہ میں نمک گھلا تو پتا چلا وہ رو رہی تھی... میں نے اس کی آنکھوں سے نمک چوس لیا....

"کیا کروں آسیہ؟ بھاگ چلیں؟ میں یہ گھر بیچ دیتا ہوں اور ویگن لے کے کسی اور گاؤں یا شہر چلتے ہیں، نئی دنیا بنائیں گے. میں تم، جہاں تم شاہنی ہو گی نہ میں موچی. بس ہم ہوں گے، بس ہم" 

دو نالی بندوق میرے سینے پہ لگی تھی ، میری چھاتی کے دائیں طرف مسلسل مُکے چل رہے تھے...

" کیسے رہ لیں گے ہم خوش راشی، تمہارے لیے آسان ہو گا، میری ماں جس سے سارے گاؤں کی بچیاں سبق پڑھنے آتی ہیں، لوگ بھیجیں گے اپنی بچیاں اس کے پاس؟ میرا باپ، آس پاس کے دس گاؤں جسے جھک کے ملتے ہیں، ہاتھ چومنا سعادت سمجھتے ہیں، وہ جھک نہیں جائے گا سب کے سامنے؟ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ان کے سر ننگے ہو جائیں گے راشی، میرے بھائیوں کے چوڑے سینے تڑخ جائیں گے"

جذبات سے اس کا چہرہ انار ہو گیا تھا... وہ شاہوں والی اکڑ گردن میں آ چکی تھی

" تو میں کیا کروں، بولو. چھپ کے دوپہریں کالی کریں اور رات کو اپنے اپنے گھر چارپائی پہ تارے گنتے ہوئے روتے رہیں؟ کیا کریں ، اپنا مان رکھ لو یا اپنا مَن.. رہ لو گی میرے بغیر؟ ہو جاؤں گی چاچے کے پتر کو پیاری؟" 

اس کے زور زور سے چومنے سے میں جیسے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. وہ مجھ پہ لیٹی ہوئی تھی. گرمی کی شدت اور جسموں کی حدت اور پسینے سے جسم چپک رہے تھے..

" جاؤ یار جاؤ. راہ پڑے پتھروں کے بت نہیں بنائے جاتے آسیہ "

یہ آخری بات تھی ہماری
راستے کا پتھر اور انگوٹھی میں جڑا نگینہ ایک ہی چارپائی پہ یک جسم تھے.
وہ زور سے مجھ سے لپٹ گئی. لپٹی رہی. لپٹی رہی یہاں تک کہ طیفے موچی اور سید جمال حسین شاہ کے خون میں فرق ختم ہو گیا. 

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...