Sunday, January 01, 2023

رائیگانی

مجھے زندگی سے نفرت ہے اور میری زندگی کی سب سے پہلی نفرت 'پڑھائی' تھی. یہ ایک ایسی چڑیل تھی جس نے میرا بچپن ایک ہی لقمہ کر کے ہڑپ کر لیا تھا. کیسا بدبخت انسان ہو گا وہ جس نے سکول میں کلاسیں بنائیں اور پھر کلاسوں میں نمبر ون نمبر ٹو اور نمبر تھری والی نفرت پیدا کی، اور پھر وہ ناہنجار یہیں پہ رکا نہیں، پاس ہونے اور فیل ہونے کے لیے بھی نمبر بنا ڈالے

میں جب پیدا ہوا تب کیا ہوا تھا، پھر میری سانسوں اور قد کے ساتھ بڑھتے سالوں میں کیا کیا ہوا، مجھے یاد نہیں، یا یوں کہہ لیں مجھے ہوش نہیں. زندگی کی پہلی یاد جو سر کے پچھواڑے میں کہیں ثبت ہو گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں بہتی آنکھوں اور بہتے ناک کے ساتھ مسلسل آگے پیچھے ہِل ہِل کے سرہانے پہ رکھے قرآن سے سبق پڑھ رہا تھا اور رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں لفظ صحیح سے تلفظ نہیں کر پاتا تھا، پڑھتے ہوئے کچھ الفاظ کو جوڑ کے پڑھنا میرے لیے بہت مشکل تھا. اس مشکل پہ مزید مشکل ابا کی جھڑکیاں تھیں جو اس وقت تھپڑوں جیسی لگتی تھیں اور رونا تو جیسے میرے سرہانے دھرا رہتا تھا

یہ سکول نامی ٹارچر سیل میں جانے سے پہلے کی یاد تھی.. پہلی کلاس میں ابا پہلے دن چھوڑ کے آئے تو مجھے اتنا یاد ہے کہ ابا کو سکول کے دروازے سے جاتے دیکھ رہا تھا اور پھر جیسے سارے میں دھند پھیل گئی تھی. پہلے دو چار دن سوائے رونے کے نہ مجھے کچھ یاد ہے اور شاید نہ ہی میں نے رونے کے علاوہ کچھ کیا تھا

چوتھی جماعت کا وہ منحوس دن بھی یادوں کے صحیفوں میں کہیں درج ہے کہ جب ایک دن اچانک ابا سکول آ دھمکے اور اس وقت ریاضی کا ایک عام پرچہ ہم حل کر رہے تھے. پانچ سوالات تھے ریاضی کے اور فی درست جواب دس نمبر، جو کل ملا کے پچاس بنتے تھے. مجھے یاد ہے کلاس کے باھر چار لائنوں میں ہم سب کلاس فیلو سر کاپی میں دے کے سوال حل رپے تھے اور ابا میرے پاس آ کے کھڑے ہوئے اور کچھ دیر کاپی دیکھنے کے بعد "شاباش، محنت کر" کہہ کے چلے گئے. ماسٹر لطیف نے کاپیاں چیک کیں اور میرے پانچ میں سے چار جواب درست نکلے یوں میں چالیس بٹا پچاس نمبر لے کے کلاس میں دوسرے نمبر پہ رہا. صرف شیدے لوہار کے بیٹے کے پچاس بٹا پچاس تھے. چھٹی کے بعد گھر گیا اور پھر عصر کے قریب کہیں گھر کے صحن میں بیٹھے ابا نے پوچھا "ہاں وئی، کتنے نمبر آئے نیں تیرے اَج؟" میں نے فوراً کاپی بستے سے نکالی اور خوش ہو کے انہیں دی. ابا نے پہلے کاپی دیکھی اور میرے باھر نکلے دانت دیکھے " او کھوتے دیاں پُترا، پورے نمبر کیوں نئیں لئے" بس پھر ابا کی چپل تھی اور مجھے روتا ہوا یاد ہوں میں. ابا چپل بھی وہ پہنتے تھے جس کا تلوا بہت موٹا اور سخت ہوتا تھا. میں روئے جا رہا تھا، ابا مجھے پِیٹے جا رہے تھے، اماں ہلکے سُروں میں ابا کو "بس کر دیو" کہے جا رہی تھی، اماں کو ڈر تھا کہ کہیں باقی غصہ، ڈبل ہو کے کہیں اس پہ نہ جا نکلے. پڑوس میں پھوپھی رہتی تھیں، وہ میرا رونا اور ابا کی گالیاں سن کے آئیں اور اپنے بھائی کو روکنے میں کامیاب و کامران ہوئیں

پھر پانچویں پاس کر کے ہائی سکول پہنچے. سکول کے دروازے کے اوپر لکھا ہوا تھا

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

چھٹی جماعت میں آئے تو آگے انگلش منہ کھولے تیار کھڑی تھی. اے بی سی کے رٹے لگنے شروع ہو گئے. بات انگلش تک رہتی تو شاید کہیں اوکھے سوکھے آگے بڑھ بھی جاتے مگر یہ سکول میری جان کا دشمن بنا ہوا تھا. چھٹی جماعت میں انگلش سے ہاتھ ملایا تو سامنے  عربی اور پھر فارسی کو بھی گلے لگانا ضروری ہو گیا تھا. ہمیں ابا کی "شاباش محنت کر" والی دوا یاد تھی سو خوب محنت کی جانے لگی. انگلش سے دوستی تو نہیں، مگر دُور سے ہیلو ہائے ہو گئی. فارسی، اردو کی قریبی ہونے کی وجہ سے اکثر پلے پڑ جاتی تھی مگر عربی، ایس جناتی زبان کہ اُسے سوائے رٹا لگانے کے چارہ ہی کوئی نہیں تھا
امتحان ہوئے، 31 مارچ کو نتیجہ نکلا اور میں کلاس میں دوسرے نمبر پہ آیا، سکول کی طرف سے دوسرے نمبر پہ آنے پہ ایک ڈائری بھی انعام میں ملی مگر گھر آ کے ابا سے جو انعامات ملے وہ انعامات میں کئی دن تک سہلاتا رہا

ساتویں جماعت میں پہنچا اور سر پہ گویا کفن باندھ لیا کہ اب کے پہلا نمبر لیے بنا سانس نہیں لینا. سوتے جاگتے کتابوں کے رٹے تھے اور ابا کی چپل کے خواب. خوب جی لگا کے محنت کی، امتحان دیا اور اکتیس مارچ کا انتظار کرنے لگا. مجھے اپنی محنت اور رٹے پہ پورا ایمان تھا کہ اس بار مجھ سے میری پہلی پوزیشن کوئی ماں کا لعل اور باپ کا ہیرا نہیں چھین سکے گا

میری یاد میں وہ دن سینما کی چادر پہ چلتی فلم کی طرح آج بھی چلتا ہے کہ جب سکول کے گراؤنڈ میں سکول کے تمام لڑکے کھڑے تھے اور نتیجے نکل رہے تھے. چھٹی جماعت کا نتیجہ نکلا اور پھر بات میری جماعت تک آئی. مجھے ہاتھوں میں آیا پسینہ اور سر میں چلتیں چیونٹیاں آج بھی یاد ہیں. مجھے یاد ہے جب ماسٹر الطاف نے ساتویں جماعت میں پہلے نمبر پہ آنے والے نام کا اعلان کیا تھا... وہ نام میرا نہیں تھا. میری سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھیں، پسینہ ہر جگہ سے پھوٹ رہا تھا، دوسرے نمبر پہ میرا نام لیا گیا، یہ مجھے یاد ہے، اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں. ابا کو جانے مجھ سے کیوں امیدیں تھیں اور ہر بار وہ خود ہی لگائی گئی امیدوں کے ٹوٹنے پہ مجھے مارا کرتے تھے. قسم لے لیں مجھ سے میں نے انہیں ایسی کوئی جھوٹی بھی امید نہیں دلائی تھی کبھی

بس پھر میں نے آٹھویں جماعت میں مزید محنت اور ابا کی جھوٹی امید کو سچا کرنے کے لیے محنت شروع کر دی. اب کے مسئلہ مزید سنگین تھا وہ اس طرح کہ آٹھویں جماعت کا امتحان بورڈ کا امتحان ہوا کرتا تھا. وہاں دوسرے کتنے ہی سکولوں سے آئے کتنے ہی لڑکے امتحان دیتے تھے. میں نے بھی دیا اور اپنی جماعت میں تیسرے نمبر پہ آیا اور پھر معجزہ ہوا. ابا کے ہاتھ نہ چپل کی طرف گئے اور نہ ہی میری طرف بڑھے. انہوں نے جیسے ٹوٹے دل سے، تاسف سے سر ہلاتے ہوئے مجھے دیکھا اور دس بارہ گالیاں دے ڈالیں. اب گالیاں، تھپڑوں کی طرح نہیں لگتی تھیں سو سب سکون رہا اور اسی سکون میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ محنت جائے بھاڑ میں، جتنی کوئی ہو سکی کیا کروں گا، باقی اپنے حساب کتاب سے ذرا گرد و نواح میں اٹھتی جوانیاں دیکھوں کیونکہ آٹھویں جماعت میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں 

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...