Monday, January 09, 2023

پرانا دوزخ

آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں 

ساتھ والی کرسی پہ ایک  عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے

 سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ساتھ والی میز پہ اس بوڑھے کی طرف دیکھتا ہے مگر وہ بوڑھا شخص کسی اور طرف متوجہ ہے. مسکراہٹ پھینکنے والا شخص مگر ایک دَم جیسے پتھر کا ہو جاتا ہے مسکراہٹ مکمل بجھ جاتی ہے اور بجھی مسکراہٹ کا دھواں جیسے چہرے پر پھیل گیا ہے. تاثرات سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا کہ اس نے اچانک کوئی بھوت دیکھ لیا ہے یا پرانا محبوب. ساتھ والے بوڑھے نے سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچا اور اسے آگ دکھانے لگا. پتھر ہوا شخص بھاری قدموں سے چلتا اس کی میز کے پاس پہنچتا ہے، بوڑھا سگار کا دھواں تب تک چھوڑ چکا ہے سو میز پہ دھواں ہی دھواں ہے. وہ شخص، اس بوڑھے کی میز پہ سامنے والی کرسی گھسیٹ کے اس پہ بیٹھ گیا ہے

دھواں چھٹتا ہے اور بوڑھا اس شخص کو دیکھتا ہے
"آپ کون" 
بوڑھے کی آواز گلے کے کہیں پچھلے خانوں سے نکلتی ہے مگر عمر نے آواز کے بھاری پن پہ شاید کوئی اثر نہیں کیا
"میں کون؟ اتنے بوڑھے تو نہیں ہو کہ یادداشت کہیں رکھ کے بھول گئے ہو" 
اس شخص کی آواز میں ایک تڑپ سی ہے
"میں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ پہیلیوں سے بھی اکتا چکا ہوں، تو بتاؤ کون" 
یہ پوچھ کے بوڑھا وائن کا گھونٹ بھرتا ہے
"میں وہی جس کی وجہ سے تم نے یہ دنیا بنا ڈالی تھی"
بوڑھا چونکتا ہے اور آنکھیں سکیڑ کے اس شخص کو غور سے دیکھتا ہے. چند لمحے جیسے کسی بوسیدہ ورق کو پڑھنے کے بعد بوڑھا کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے
" بہت دیر بعد ملے ہو" 
وہ شخص ویٹر کو اشارہ کر کے ایک اور گلاس منگواتا ہے، ویٹر گلاس میں وائن ڈالتا ہے اور وہ شخص وائن کے دو گھونٹ لیتا ہے
"اتنی ہی دیر جتنی دیر میں یہ دنیا بنائی تھی، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اتنی محبت! بہر حال اصل تو دونوں کی ایک ہی ہے،  اصول بھی اور شاید حصول بھی. کیا حاصل ہوا تمہیں" 
بوڑھے کی مسکراہٹ مدھم ہوتی جاتی ہے
"میں بھول چکا ہوں، میں تمہیں بھی بھول گیا تھا، آج تو پہچانا بھی نہیں"
بوڑھا سمندر کو گھورنے لگتا ہے
" میں نہیں بھولا، تم میں ہمت ہے بھولنے کی، ہمت ہے یا بزدلی مگر مجھے یاد رکھنے کا خوف ہے. کوئی اپنی محبت کو یوں دھتکارتا ہے؟ پہلی محبت کو" 
اس شخص کی آواز میں صدیوں کا کرب چیخ رہا ہے
" کیا نہیں تھا ان صدیوں بھرے لمحوں میں، میں کہانیاں سناتا تھا تم ہنستے تھے، میں شعر سناتا تھا تمہاری آنکھیں بھر آتی تھیں، میں گاتا تھا تم سر دھنتے تھے، میں رقص کرتا تھا تم تالیاں پیٹتے تھے. میری چپ سے تمہیں اتنی تکلیف ہوتی
تھی کہ" 
"میں نے کہا ناں میں بھول چکا ہوں"
بوڑھے کی آواز میں لرزش جھلک رہی ہے
وہ شخص  آدھا گلاس ایک ہی گھونٹ کرتا ہے
" تمہاری آواز کی لڑکھڑاہٹ تمہاری بات سے ہاتھ نہیں ملا رہی"
بوڑھا ہاتھ بالوں میں پھیرتا ہے
" میرے پاس یاد رکھنے کو کچھ نہیں ہے اور اب تو بھول جانے کو بھی کچھ نہیں رہا. تم پرانی آگ سے مکمل جل چکی لکڑی کو سینکنے میں ہار جاؤ گے، یہ ہارنے والی بات دیجاوو تو نہیں؟ خیر اس یاد اور بھول کے اندر کھاتے دیجاوو نے اپنی الگ ہی دوکان کھول رکھی ہے" 
بوڑھا مسکراتا ہے اور اپنے بال ریڑ کی قید سے آزاد کر دیتا ہے، اس کے گھنگھریالے بال کندھوں پہ جھولنے لگتے ہیں
" تم آج بھی ساری جنتیں اور سارے جہنم اپنے اندر چھپا کے رکھنے کی بری عادت سے نہیں نکلے. تم بھولے نہیں ہو، تم بھولنے اور یاد رکھنے کی جنگ ہار چکے ہو، ورنہ تم یہاں کیوں آتے؟ تمہیں پتا ہے کہ میں تمہیں یہیں ملوں گا، تمہیں یاد ہے کہ یاد رکھنے کے گناہ گار تم بھی ہو. بھول جانے کے ثواب تمہارے کھاتے میں نہیں آنے"
وہ شخص رکتا ہے، بوڑھا اسے دیکھے جاتا ہے
" میں تھک چکا ہوں، تم نہیں تھکے"
وہ شخص بایاں ہاتھ چہرے پہ ملتا ہے
" تمہیں ملا ہوں تو صدیوں کی تھکاوٹ کندھوں پہ آن بیٹھی ہے. تمہیں دیکھا ہے تو احساس ہوا ہے کہ مسافتوں کی دیمک ٹانگیں چاٹ چکی ہے. تم سے بات کی ہے تو وجود کا ہر حصہ کسی بوڑھے مرتے گرتے درخت کی چھال لگ رہا ہے"
اس شخص کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
"ساتھ چلو گے" 
بوڑھے کے اس سوال پہ وہ شخص چونکتا تک نہیں، جیسے اسے پتا ہے کہ اب آگے کون سا سین آنے والا ہے، جیسے وہ یہ فلم کئی بار دیکھ چکا ہے
" نئی محبت سے اکتا چکے ہو یا تھک چکے ہو؟ یا پرانی محبت سے روا رکھے سلوک پہ شرمندگی مٹانے کو پھر ہاتھ تھامنے آئے ہو؟ کیا پھر ایک دھوکا" 
بوڑھا کیپ اٹھا کے اس کے کونے سیدھے کرتا ہے
"میں بھول چکا ہوں، نئی محبت یا پرانی، مجھے کچھ یاد نہیں. میرا جسم اب سکون کی چادر اوڑھ کے کسی پہاڑ پہ ایک گھر کے آتش دان میں جلتی لکڑیوں کی تڑ تڑ کی دھن پہ برف سے لدے پہاڑوں کے پس منظر میں تمہاری کہانیاں سننا چاہتا ہے، سناؤ گے" 
اس شخص کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے، وہ کرسی سے اٹھ جاتا ہے. بوڑھا کیپ  سر پہ رکھتا ہے، سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچتا ہے. گلاس میں بچی وائن کا آخری گھونٹ بھر کے ایک مسکراہٹ میری طرف پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے اور وہ دونوں سمندر کے کنارے آگے بڑھتے جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. ی...